ناممکن تقاضا
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ۹۹لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ۱۰۰
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے. شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم ه برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے.
گذشتہ آیات میں مشرکین کی اپنے رائے جو ہٹ دھرمی کا ذکر تھا، زیرِ بحث آیات میں آستانہ موت پر ان کی دردناک کیفیت کا تذکرہ ہے ۔
وہ اپنی غلط روش پر یونہی گامزن رہیں گے، یہاں تک کہ موت ان میں سے کسی کو آئے (حَتَّی إِذَا جَاءَ اٴَحَدَھُمَ الْمَوْتُ) ۔
اس وقت کہ جب وہ دیکھے گا کہ اس جہان سے اس کا رابطہ کٹ گیا ہے، اور اب وہ دوسرے جہان میں ہے تو غرور غفلت کے پردے اس کی آنکھوں پر اٹھ جائیں گے، گویا اپنا دردناک انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا، اسے یاد آئے گا کہ اس سے عمر گنوادی اور اتنا سرمایہ ضائع کردیا، اسے اپنی عمر رفتہ کوتاہیاں یاد آئیں گی، وہ گناہ جو اس نے انجام دیئے تھے، ان کا خیال آئے گا اور اب ان سب کا منحوس انجام وہ اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہوگا، اس وقت وہ فریاد کرے گا اور پکارے گا: اے میرے رب مجھے واپس بھیج دے(قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ) ۔ مجھے پھر دنیا بھر میں لوٹادے کہ میں اپنے کئے کی تلافی کرسکوں اور اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کے لئے عمل صالح بجالاوٴں (لَعَلِّی اٴَعْمَلُ صَالِحًا فِیمَا تَرَکْتُ) ۔
لیکن قانونِ آفرینش کسی نیک یا بد کو واپس آنے کی اجازت نہیں دیتا، لہٰذا اُسے جواب دیا جائے گا، کیا؟، واپسی؟ ہرگز نہیں (کَلاَّ) ۔ یہ تو ایسی بات جو وہ صرف ربان سے کہتا ہے (إِنَّھَا کَلِمَةٌ ھُوَ قَائِلُھَا) ۔
۱۔ ”حَتَّی“ در حقیقت ایک محذوف جملے کی غایت ہے کہ جو گذشتہ عبارتوں سے واضح ہے اور وہ تقدیر میں یوں ہے: ”انّھم سیتمرون علیٰ ھذا الحال حتیّٰ اذا جائھم الموت“ ”وہ اپنے طریقے پر چلتے رہیں گے یہاں تک ان میں کسی ایک کو موت آجائے“
اور یہ مفہوم”نحن اعلم بما یصفون“ سے بھی سمجھا جاسکتا ہے اور یہ جملہ گذشتہ آیات میں بھی وہ مرتبہ آیا ہے (غور کیجئے(
یہ بات اس کے دل کی گہرائیوں سے، ارادے اور آزادی کے ساتھ نہیں نکلی، یہ تو وہی بات ہے، جو ہر گناہگاراس وقت کہتا ہے، جب وہ سزا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے اور جب طوفانِ بلا تھم جاتا ہے تو پھر وہ اپنے طرزِ عمل کو جاری رکھتا ہے ۔
سورہٴ انعام کی آیت ۲۸ میں بھی ایسی ہی بات فرمائی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
<وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُھُوا عَنْہُ
”اگر وہ اپنی حیاتِ دنیا کی طرف لوٹ جائیںتو وہی پہلے کا سا طور طریقہ جاری رکھیں“۔
آیت کے آخر میں برزخ کی اسرار آمیز زندگی کی طرف نہایت معنیٰ خیز اشارہ کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: جس روز وہ اٹھائے جائیں گے، اُس دن تک ان کے پیچھے برزخ ہے (وَمِنْ وَرَائِھِمْ بَرْزَخٌ إِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ(