شرک، دنیا کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے
مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَٰهٍ ۚ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ ۹۱عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ۹۲
یقینا خدا نے کسی کو فرزند نہیں بنایا ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا ہے ورنہ ہر خدا اپنی مخلوقات کو لے کر الگ ہوجاتا اور ہر ایک دوسرے پر برتری کی فکر کرتا اور کائنات تباہ و برباد ہوجاتی-اللرُ ان تمام باتوں سے پاک و پاکیزہ ہے. وہ حاضر و غائب سب کا جاننے والا ہے اور ان سب کے شرک سے بلند و بالاتر ہے.
گزشتہ آیات میں معاد اور الله کی مالکیت، حاکمیت اور ربوبیت کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے، زیرِ نظر آیات میں نفی شرک کے مسئلے پر بات ہوئی ہے، ان میں مشرکین کے کچھ انحرافات کا جواب دیا گیا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے: الله نے ہرگز کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے (مَا اتَّخَذَ اللهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا کَانَ مَعَہُ مِنْ إِلَہٍ) ۔
صرف عیسائی الله کی اولاد کا عقیدہ نہیں رکھتے، بلکہ مشرکین کا بھی اس طرح کا عقیدہ تھا، عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو الله کا حقیقی بیٹا کہتے ہیں، جبکہ مشرکین فرشتوں کو الله کی بیٹیاں کہہ کر پکارتے تھے، اور شاید عیسائیوں نے بھی یہ عقیدہ پرانے مشرکین ہی سے لیا تھا، بہرحال بیٹا چونکہ ذات اور حقیقت کے لحاظ سے باپ کا ایک حصّہ ہے، اس لئے وہ لوگ فرشتوں یا حضرت عیسیٰعلیہ السلام وغیرہ کے لئے الوہیّت کے ایک حصّہ کے بھی قائل تھے اور یہ واضح طور پر مظاہر شرک میں سے ہے ۔
اس کے بعد نفی شرک کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اگر الله کا کوئی شریک ہوتا اور متعدد خدا عالم ہستی پر حکمران ہوتے تو ہر ایک اپنی خاص مخلوق کا نظام خود چلانے کے درپے ہوتا اور یہ فطری بات ہے کہ پھر کائنات کے مختلف حصّوں کا نظام مختلف ہاتھوں میں ہوتا اور یہ بات موجودہ نظام وحدت سے ہم آہنگ نہیں ہے (إِذًا لَذَھَبَ کُلُّ إِلَہٍ بِمَا خَلَقَ) ۔
علاوہ ازیں ان خداوٴں میں سے ہر ایک اپنی حکومت کو توسیع دینے کی کوشش کرتا اور دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کے درپے ہوتا ، اور یہ بات نظام عالم کے درہم برہم ہوجانے کا باعث ہوتی(وَلَعَلَابَعْضُھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ) ۔
اور آیت کے آخر میں ایک مجموعی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: پاک ہے الله اس سے کہ جو اس کی توصیف کرتے ہیں (سُبْحَانَ اللهِ عَمَّا یَصِفُونَ) ۔
اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اچھی طرح سے مشاہدہ کررہے ہیں کہ عالمِ کائنات پر ایک وسیع نظام حکم فرما ہے زمین وآسمان پر ایک جیسے قوانین کی حکمرانی ہے، جو قوانین انتہائی چھوٹے سے ذرّے ”ایٹم“ پر حکم فرما ہیں، وہی نظام شمسی اور دیگر نظاموں پر حکم فرما ہیں، ماہرین کے بقول اگر ایٹم کو بڑا کرلیا جائے تو وہ نظام شمسی کی شکل دھارلے اور اگر اس کے برعکس نظام شمسی کو چھوٹا کرلیا جائے، تو وہ ایک ایٹم کی صُورت اختیار کرلے ۔
مختلف علوم کے ماہرین اور سائنسدان نے جدید ترین آلات ووسائل کی مدد سے کائنات کی دستوں کا جو مطالعہ کیا ہے، اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے، یہ تمام کائنات وحدتِ نظام کا ترجمان ہے ۔
دوسری طرف تعداد کا لازمہ ہمیشہ ایک قسم کا اختلاف اور تفاوت ہے، کیونکہ دو چیزیں اگر ہر لحاظ سے ایک ہوں تو وہ ایک چیز ہوجائیں گی اور پھر دو کا کوئی مفہوم نہیں رہ جائے گا، لہٰذا اگر اس جہان کے لئے متعدد خدا فرض کئے جائیں تو یہ تعداد مخلوقاتِ عالم اور ان پر حاکم نظام پر اثر انداز ہوگا اور اس کا نتیجہ نظامِ کائنات کی عدم وحدت ہوگا ۔
اس سے قطع ہر موجودہ تکامل و ارتقاء کا خواہاں ہے مگر جو موجود ہر لحاظ سے کامل ہو اس کے لئے تکامل کا کوئی مفہوم نہیں ہے، اگر ہم متعدد فرض کریں اور ان کی مختلف حکومتیں فرض کریں تو ظاہری سی بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی کمالِ مطلق کا مالک نہ ہوگا، لہٰذا فطری امر ہے کہ ان میں سے تکامل کے درپے ہوگا اور چاہے گا اگر تمام عالمِ ہستی کو اپنے احاطہٴ اقتدار میں شامل کرلے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر ایک دوسرے پر برتری وفوقیت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کا نتیجہ کائنات کی تباہی ہوگا ۔
اس طرح سے مذکورہ بالا آیت کے دونوں جملوں میں سے ہر ایک، ایک علیحدہ منطقی دلیل کی طرف اشارہ ہے، لہٰذا یہ دلائل منطقی پہلو رکھتے ہیں نہ کہ اقتناعی (1) ۔
اب یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ یہ سب کچھ اس صورت میں ہے ،اگر ہم فرض کریں کہ خدا ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کریں، لیکن اگر وہ حکیم وآگاہ ہوں تو پھر کیا مانع ہے، مثلاً وہ شورائی نظام کے تحت بھی کائنات کو چلاسکتے ہیں، اس سوال کا جواب ہم تیرھویں جلد میں سورہٴ انبیاء کی آیت ۲۲ کے ذیل میں تفصیل ”برہان تمانع“ کے موضوع کے تحت پیش کرچکے ہیں، یہاں تکرار کی ضرورت نہیں ۔
اگلی آیت میں ان بیہودہ گو مشرکین کو ایک اور جواب دیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ”الله ہر پنہاں وآشکار سے آگاہ ہے“ تمھیں جن کے خدا ہونے کے دعویٰ ہے، اگر کوئی ہوتا وہ الله ضرور ان سے آگاہ ہوتا، جبکہ ایسا نہیں ہے (عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ) ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ عالم میں کوئی اور خدا ہوتا کہ جس سے تم آگاہ ہو، لیکن وہ الله کہ جو تمھارا خالق ہے اور غیب وشہود کو جانتا ہے، اس سے بے خبر ہو ۔
یہ بیان درحقیقت سورہٴ یونس کی آیت ۱۸ سے ملتا جلتا ہے، جس میں فرمایا گیا ہے:
<قُلْ اٴَتُنَبِّئُونَ اللهَ بِمَا لَایَعْلَمُ فِی السَّمَاوَاتِ وَلَافِی الْاٴَرْضِ
”کہو: کیا تم الله کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو، جس کے وجود کا اُسے آسمان وزمین میں پتہ نہیں ہے“۔
آخری جملے میں یہ کہہ کر اُن خرافاتی خیالات پر خطّ بطلان کھینچا گیا ہے: الله اس سے بالاتر ہے کہ اس کے لئے شریک قرار دیں (فَتَعَالیٰ عَمَّا یُشْرِکُونَ) ۔
آیت کا یہ حصّہ سورہٴ یونس کی آیت کے آخری حصّے سے بالکل مشابہ ہے، جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
<سُبْحَانَہُ وَتَعَالیٰ عَمَّا یُشْرِکُونَ
یہ نشاندہی کرتا ہے کہ دونوں آیات ایک ہی مطلب کی طرف اشارہ کررہی ہیں ۔
ضمنی طور پر جملہ مشرکین کے لئے ایک تنبیہ بھی ہے کہ الله اُن کے ظاہر وپنہاں سے آگاہ ہے اور وہ ان تمام باتوں کو جانتا ہے اور موقع آنے پر وہ اپنی عدالت میں ان کا فیصلہ کرے گا ۔
1۔ ”وَلَعَلَابَعْضُھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ“ کی علامہ طباطبائی مرحوم نے تفسیر المیزان میں ایک اور تفسیر ذکر کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم پر حاکم نظام کبھی تو ایک دوسرے کے متوازی اور عرض میں ہوتے ہیں، مثلاً صحرا اور دریا پر حاکم نظام اور کبھی ایک دوسرے کے تسلسل اور طول می مثلاً نظامِ شمسی کُلی ومجموعی اعتبار سے اور وہ نظام کہ جو کرّہٴ زمین پر حاکم ہے، زمین پر حاکم نظام شمسی کا ایک حصّہ ہے دوسری صورت میں ایک نظام کے تحت دوسرا نظام ہے، اگر ان میں سے ہر ایک الگ خدا سے وابستہ ہو تو ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ جو خدا کلی نظام پر حاکم ہے، وہ ہر موقع پر اس خدا سے برتر ہے جو ماتحت نظام پر حاکم ہے، اس لحاظ سے ہمیں خداوٴں کے لئے سلسلہٴ مراتب کا قائل ہونا پڑے گا، (جیسے کسی ایک ملک میں صدر، وزیر، گورنر اور افسر کا سلسلہ ہوتا ہے اور ان کے مختلف مراتب ہوتے ہیں) جبکہ خدا کے لئے ایسا سلسلہٴ مراتب قبول کرنا محال ہے ۔