آیت میں حصر کا مفہوم
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۱الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۲الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۳مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ۴إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۵اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۶صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۷
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے. ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے. وہ عظیم اوردائمی رحمتوں والا ہے. روزِقیامت کا مالک و مختار ہے. پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ا ور تجھی سے مدد چاہتے ہیں. ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ. جو اُن لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہیں ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں.
چند اہم نکات
۱۔ آیت میں حصر کا مفہوم: عربی ادبیات کے قواعد کے مطابق جب مفعول، فاعل پر مقدم ہوجائے تو اس سے حصر کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہاں بھی ایاک کا نعبد اورنستعین پر مقدم ہونا دلیل حصر ہے اور اس کا نتیجہ وہی توحید عبادت اور توحید افعال ہے جسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندگی اور عبودیت میں بھی ہم اس کی مدد کے محتاج ہیں اور اس کے لئے بھی ہم اسی سے طلب اعانت کرتے ہیں تاکہ کہیں انحراف، خود پسندی، ریاکاری اور ایسے دیگر امور میں گرفتار نہ ہو جائیں کیونکہ یہ چیزیں عبودیت کوریزہ ریزہ کردیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہم پہلے جملے میں کہتے ہیں کہ ہم صرف تیری پرستش کرتے ہیں اس میں کچھ نہ کچھ استقلال کی بو آتی ہے لہذا فورا ایاک نستعین سے ہم اس کی اصلاح کرلیتے ہیں۔ اس طرح بین الامرین(نہ جبر نہ تفویض) کو اپنی عبادت میں جمع کر لیتے ہیں۔ یہ حالت ہمارے تمام کاموں کے لئے ایک نمونہ ہے۔