Tafseer e Namoona

Topic

											

									  قبلہ کی تبدیلی کے اسرار

										
																									
								

Ayat No : 143

: البقرة

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ ۱۴۳

Translation

اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوںکے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں اور ہم نے پہلے قبلہ کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا کہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول کا اتباع کرتاہے اور کون پچھلے پاؤں پلٹ جاتا ہے. اگرچہ یہ قبلہ ان لوگوںکے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی اللہ نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرنا چاہتا. وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والا ہے.

Tafseer

									 بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی ان سب کے لئے اعتراض کا موجب بنی جن کا گمان تھا کہ ہر حکم کو مستقل رہنا چاہئیے۔ وہ کہتے تھے اگر ہمارے لئے ضروری تھا کہ کعبہ کی طرف نماز پڑھیں تو پہلے دن یہ حکم کیوں نہ دیاگیا اور اگر بیت المقدس مقدم ہے جو گذشتہ انبیاء کا بھی قبلہ شمار ہوتاہے تو پھر اسے کیوں بدل دیا گیا۔
دشمنوں کے ہاتھ بھی طعن زنی کا میدان آگیا۔ شاید وہ کہتے تھے کہ پہلے تو انبیاء ما سبق کے قبلہ کی طرف نمازپڑھتے تھے لیکن کامیابیوں کے بعد اس پر قبیلہ پرستی نے غلبہ کرلیا ہے لہذا اپنی قوم اور قبیلے کے قبلہ کی طرف پلٹ گیاہے۔ یا کہتے تھے کہ اس نے دھوکا دینے اور یہود و نصاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے پہلے بیت المقدس کو قبول کرلیا اور جب یہ بات کارگر نہ ہوسکی تو اب کعبہ کی طرف رخ کرلیاہے۔
واضح ہے کہ ایسے وسوسے اور وہ بھی ایسے معاشرے میں جہاں ابھی نور علم نہ پھیلا ہو اور جہاں شرک و بت پرستی کی رسمیں موجود ہوں کیسا تذ بذب و اضطراب پیدا کردیتے ہیں۔ اسی لئے زیر نظر آیت میں قرآن صراحت سے کہتاہے کہ یہ مومنین اور مشرکین میں امتیاز پیدا کرنے والی ایک عظیم آزمائش تھی۔ خانہ کعبہ اس وقت مشرکین کے بتوں کا مرکز بنا ہو اتھا لہذا حکم دیاگیا کہ مسلمان وقتی طور پربیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ لیا کریں تا کہ اس طرح مشرکین سے اپنی صفیں الگ کرسکیں لیکن جب مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد اسلامی حکومت و ملت کی تشکیل ہوگئی اور مسلمانوں کی صفیں دوسروں سے مکمل طور پر ممتاز ہوگئیں تواب یہ کیفیت برقرار رکھنا ضروری نہ رہا۔ لہذا اس وقت کعبہ کی طرف رخ کرلیا گیا جو قدیم ترین مرکز توحید اور انبیاء کا بہت پرانا مرکز تھا۔
ایسے میں ظاہر ہے کہ جو کعبہ کو اپنا خاندانی معنوی اور روحانی سرمایہ سمجھتے تھے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا ان کے لئے مشکل تھا اور اسی طرح بیت المقدس کے بعد کعبہ کی طرف پلٹنا لہذا اس میں مسلمانوں کی سخت آزمائش تھی تا کہ شرک کے جتنے آثار ان میں باقی رہ گئے تھے اس کٹھالی میں پڑکرجل جائیں اور ان کے گذشتہ شرک آلود رشتے ناتے ٹوٹ جائیں۔
جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں اصولی طور پر تو خدا کے لئے مکان نہیں ہے قبلہ تو صرف وحدت اور صفوں میں اتحاد کی ایک رمزہے اور اس کی تبدیلی کسی چیز کودگرگوں نہیں کرسکتی۔ اہم ترین امر تو خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرناہے اور تعصب اور ضد پرستی کے بتوں کو توڑناہے۔