Tafseer e Namoona

Topic

											

									  سب سے زیادہ خسارت میں کون لوگ ہیں؟

										
																									
								

Ayat No : 103-108

: الكهف

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا ۱۰۳الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا ۱۰۴أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ۱۰۵ذَٰلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا ۱۰۶إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ۱۰۷خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا ۱۰۸

Translation

پیغمبر کیا ہم آپ کو ان لوگوں کے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں. یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں. یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے آیات پروردگار اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ہے تو ان کے اعمال برباد ہوگئے ہیں اور ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے. ان کی جزا ان کے کفر کی بنا پر جہنم ّہے کہ انہوں نے ہمارے رسولوں اور ہماری آیتوں کو مذاق بنا لیا ہے. یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کی منزل کے لئے جنّت الفردوس ہے. وہ ہمیشہ اس جنّت میں رہیں گے اور اس کی تبدیلی کی خواہش بھی نہ کریں گے.

Tafseer

									سب سے زیادہ خسارت میں کون لوگ ہیں؟

ان آیات میں اور ان کے بعد سورہ کے آخر تک بے ایمان لوگوں کی صفات بیان کی گئی ہیں ان آیات میں بلکہ اس پوری سورت میں مختلف جگہوں پر بحثیں آئی ہیں انہیں جمع کردیا گیا ہے ۔ خصوصاً اصحابِ کہف، موسیٰ(علیه السلام) و خضر(علیه السلام) اور ذوالقرنین کی جد و جہد او رمخالفین کے مقابلے میں ان کے طرزِ عمل سے مربوط مباحث کا ان آیات میں ایک طرح سے نچوڑ آگیا ہے ۔
سب سے پہلے تو ان لوگوں کا ذکر ہے کہ جو زیادہ خسارت میں ہیں او ر انسانوں میں سب سے زیادہ بدبخت ہیں ۔ لیکن سننے والوں کے احساسِ جستجو کو تحریک دینے کے لیے اس اہم مسئلے پر گفتگو سوالیہ انداز میں کی گئی ہے ۔ رسول اللهکو حکم دیا گیا ہے کہ کہہ دو: کیا انہیں ان لوگوں کے بارے میں خبر نہ دوں کہ جولوگوں میں سب سے زیادہ خسارت میں ہیں(قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاٴَخْسَرِینَ اٴَعْمَالًا) ۔
فوراً ہی خود جواب دیا گیا ہے تا کہ سننے والا زیادہ دیر تک متحیر نہ رہے ۔ زیادہ خسارت میں وہ لوگ ہیں جن کی ساری کوششیں حیاتِ دنیا میں بھٹک کے رہ گئی ہیں مگر پھر بھی ان کا خیال ہے کہ وہ اچھے کام انجام دے رہے ہیں(الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُونَ اٴَنَّھُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعًا) ۔
یقیناً نقصان صرف یہ نہیں ہے کہ انسان مادی مفادات گنوا بیٹھے بلکہ حقیقی نقصان تو یہ ہے کہ انسان اصل سرمایہ ہی کھودے ۔ عقل و ہوش، خدا داد صلاحیتیں، عمر، جوانی اور صحت و سلامتی سے بڑھ کر کون سا سرمایہ ہوسکتا ہے ۔ یہی چیزیں ہیں کہ جن کا ماحصل انسانی اعمال ہیں اور ہمارے عمل ہماری استعداد اور طاقت کی ایک مجسم شکل کے ہوتے ہیں ۔
جب یہ قوتیں اور صلاحتیں بے ہودہ اعمال کی شکل اختیار کر لیں تو گویا یہ سب ضائع ہوگئیں اور راہ گم کردہ ہوگئیں ۔ یہ بالکل ایسے ہے کہ انسان بہت زیادہ دولت لے کر بازار کو نکلے لیکن اسے راستے میں گنوادے اور خالی ہاتھ لوٹ آئے ۔ البتہ جب انسان سمجھ جائے کہ میں اپنا سرمایہ گنوا بیٹھا ہوں تو یہ نقصان زیادہ خطرناک نہیں کیونکہ یہ نقصان اس کے لیے آئندہ سبق بن جائے گا ۔ یہ درس بعض اوقات اس کھو جانے والے سرمائے کے برابر ہوتا ہے او رکبھی اس سے بھی زیادہ قیمتی ۔ ایسا کہ گویا اس نے کچھ نہیں گنوایا ۔
لیکن حقیقی اور کئی گنا نقصان اس صورت میں ہے کہ انسان اپنا مادی او رروحانی سرمایہ کسی غلط اور کج راستے پر گنوا دے او رخیال کرے کہ اس نے اچھا کام لیا ہے، وہ اپنے کاموں سے نہ کوئی نتیجہ حاصل کرے، نہ اس نقصان سے کوئی سبق اور نہ ایسے کاموں کے تکرار سے بچے ۔
یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ یہاں”بِالْاٴَخْسَرِینَ اٴَعْمَالًا“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں حالانکہ”‘اٴَخْسَرِینَ عَمَلًا“ہونا چاہئے تھا(کیونکہ تمیز عام طور پر مفرد ہوتی ہے) ۔
ہوسکتا ہے یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہو کہ وہ ایک ہی بازارِ عمل میں نقصان کا شکار ہوئے بلکہ ان کا جہل مرکب زندگی کے تمام پہلووٴں اور تمام اعمال میں نقصان کا سبب بنا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں انسان کسی ایک تجارت میں نقصان کر بیٹھتا ہے اور دوسرے کاروبار میں فائدہ حاصل کرلیتا ہے ۔ سال کے آخر میں حساب کرتا ہ تو دیکھتا ہے کہ کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا لیکن بدبختی یہ ہے کہ انسان جہاں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے تمام شعبوں میں نقصان اٹھاتا ہے ۔
ضمناً ”ضل“یعنی گم کر بیٹھنا اور بھٹک جانا کی تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کے اعمال بالکل ختم اور نابود نہیں ہوجاتے ۔ جیسے مادہ اور توانائی ہمیشہ شکل بدلتے رہتے ہیں ختم نہیں ہوتے لیکن کبھی گم ہوجاتے ہیں ۔ ان اعمال کے آثار چونکہ دکھائی نہیں دیتے اور ان سے کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا تو یہ گویا گمشدہ سرمایہ ہیں جو ہماری دسترس میں نہیں ہے اور نہ ہمارے کسی کام کا ہے ۔
اس سلسلے میں کہ انسان کی نفسیاتی طور پر یہ کیفیت کیوں ہوتی ہے ہم ”چند اہم نکات“کے ذیل میں بات کریں گے ۔ 
اگلی آیات میں اس نقصان اٹھانے والے گروہ کی صفات اور عقائد و نظریات بیان کیے گئے ہیں اورچند ایسی صفات بیان کی گئی ہیں جو تمام بدبختیوں کی جڑہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کی آیات کو للکارتے ہیں ( اٴُولَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّھِمْ) ۔
وہ ان آیات سے کفر کرتے ہیں کہ جو آنکھ کو بصارت اور کان کو شنوائی عطا کرتی ہیں، وہ آیات جو نور اور روشنی ہیں اور جو انسان کو اوہام کے ظلمات سے باہر نکال دیتی ہیں اور سرزمین حقائق کی طرف ہدایت کرتی ہیں ۔
آیات الٰہی سے کفر اختیار کرنے اور خدا کو فراموش کرنے کے بعد وہ لقائے الٰہی کے بھی منکر ہوگئے ہیں (وَلِقَائِہِ) ۔
جی ہاں! جب تک معاد پر ایمان مبداء پر ایمان کے ساتھ نہ ہو اور انسان یہ احساس نہ کرلے کہ کوئی طاقت اس کے اعمال کی نگران ہے اور سب اس کی عظیم، دقیق اور سخت عدالت میں پیش ہوں گے، وہ اپنے اعمال کی صحیح جانچ پرکھ نہیں کرے گا اور اس کی اصلاح نہیں ہوسکے گی ۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: مبداء و معاد سے اسی انکار اور کفر کی وجہ سے ان کے اعمال اکارت ہوگئے ہیں (فَحَبِطَتْ اٴَعْمَالُھُمْ) ۔ جیسے ایک تیز رفتار آندھی تھوڑی سی خاکستر کو نابود کردیتی ہے ۔
اور چونکہ ان کا کوئی ایسا عمل نہیں کہ جو ناپ تول کے لائق ہو یا جس کی کوئی اہمیت ہو لہٰذا ان کیلئے روزِ قیامت کوئی میزان قائم نہیں کی جائے گی (فَلَانُقِیمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَزْنًا) ۔
کیوں کہ وزن اور ناپ تول تو وہاں ہوتا ہے جہاں بساط میں کچھ ہو۔ جن کی بساط میں کچھ بھی نہیں ان کے لئے میزان اور ناپ تول کی کیا ضرورت ہے ۔
اس کے بعد ان کے انحراف، بدبختی اور نقصان کا تیسرا عامل بیان کیا گیا ہے نیز ان کا کیفرِ کردار بھی بتایا گیا ہے: ارشاد ہوتا ہے: ان کی سزا جہنم ہے، اس لیے کہ وہ کافر ہوگئے ہیں اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق اڑاتے ہیں ( ذٰلِکَ جَزَاؤُھُمْ جَھَنَّمُ بِمَا کَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آیَاتِی وَرُسُلِی ھُزُوًا) ۔(۱)
اس طرح انہوں نے نہ صرف عقائد کے تین بنیادی اصولوں، توحیدی، نبوت اور قیامت سے کفر اختیار کیا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان کا مذاق اڑایا ہے ۔
ان آیات سے کفر اور ان کا کردار و انجام واضح ہوگیا کہ جو زیادہ خسارت میں ہیں ۔ اب مومنین اور ان کے انجام کی باری ہے تا کہ دونوں کا موازنہ ہوجائے اور اس صورت حال بالکل واضح ہو جائے ۔ قرآن کہتا ہے: وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام لیے باغاتِ فردوس ان کی منزل ہے(إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَانَتْ لَھُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا) ۔

جبکہ بعض دوسرے علماء مبتداء کو محذوف اور”ذٰلِک“ کو اس کی خبر جانتے ہیں اور” جَزَاؤُھُمْ جَھَنَّمُ “ کو بھی وہ دوسرا مبتداء خبر سمجھتے ہیں ۔ ان کے لحاظ سے تقدیر یوں ہوگا ۔
الامرذٰلِکَ جَزَاؤُھُمْ جَھَنَّمُ 
معاملہ کچھ یوں ہے کہ ان کی جزاء جہنم ہے ۔
لیکن واضح ہے کہ پہلا بیان زیادہ مناسب ہے ۔
جیسا کہ بعض بزرگ مفسرین نے کہا ہے ”فردوس“ ایسا باغ ہے جس میں تمام ضروری نعمتیں جمع ہیں اور اس طرح سے ”فردوس“ جنت کے بہترین باغوں میں سے ہے، اور کسی نعمت کا کمال تبھی ہوگا جب اسے زوال نہ ہو لہٰذا ساتھ ہی فرمایا گیا ہے: وہ ان باغات ِ بہشت میں سدار ہیں گے (خَالِدِینَ فِیھَا) ۔
انسان کی طبیعت اگر ہ جدت پسند اور وہ ہمیشہ تنوع، تغیّر اور تبدیل چاہتا ہے لیکن فردوس کے باسی کبھی بھی نقل مکانی اور تبدیلی کی خواہش نہیں کریں گے ۔(لَایَبْغُونَ عَنْھَا حِوَلًا) ۔ اس بناء پر کہ وہ جو کچھ چاہیں گے وہاں موجود ہے یہاں تک کہ تنوع اور تکامل بھی ۔ جیسا کہ ”چند اہم نکات“کے ذیل میں ہم وضاحت کریں گے ۔

 

۱۔ ”ذٰلِکَ جَزَاؤُھُمْ جَھَنَّمُ “کی ترکیب اور جمع بندی کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض” ذٰلِکَ “ کو مبتدا اور” جَزَاؤُھُمْ “ کو خبر اور” جَھَنَّمُ “ کو ” ذٰلِکَ“ کا بدل سمجھتے ہیں