Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ان واقعات کا راز

										
																									
								

Ayat No : 79-82

: الكهف

أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا ۷۹وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۸۰فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا ۸۱وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا ۸۲

Translation

یہ کشتی چند مساکین کی تھی جو سمندر میں باربرداری کا کام کرتے تھے میں نے چاہا کہ اسے عیب دار بنادوں کہ ان کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو غصب کرلیا کرتا تھا. اور یہ بچّہ .... اس کے ماں باپ مومن تھے اور مجھے خوف معلوم ہوا کہ یہ بڑا ہوکر اپنی سرکشی اور کفر کی بنا پر ان پر سختیاں کرے گا. تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی میں اس سے بہترہو اور صلئہ رحم میں بھی. اور یہ دیوار شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور ان کا باپ ایک نیک بندہ تھا تو آپ کے پروردگار نے چاہا کہ یہ دونوں طاقت و توانائی کی عمر تک پہنچ جائیں اور اپنے خزانے کو نکال لیں- یہ سب آپ کے پروردگار کی رحمت ہے اور میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کیا ہے اور یہ ان باتوں کی تاویل ہے جن پر آپ صبر نہیں کرسکے ہیں.

Tafseer

									ان واقعات کا راز
جب حضرت موسی(ع) اور خضر(ع) کا جدا ہونا طے پاگیا تو ضروری تھا کہ یہ الٰہی استاد اپنے ان کاموں کے اسرار ظاہر کرے کہ حضرت موسیٰ(ع) جنھیں گوارا نہیں کرپائے تھے ۔ درحقیقت ان سے ہمراہی کا فائدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے یہی تھا کہ وہ ان تین عجیب واقعات کا راز سمجھ لیں اور یہی راز بہت سے مسائل کی تفہیم کے لیے کلید بن سکتا تھا اور مختلف سوالوں کا جواب اس میں پنہاں تھا ۔
حضرت خضر نے کشتی والے واقعے سے بات شروع کی اور کہنے لگے: ہاں، تو وہ کشتی والی بات یہ تھی کہ وہ چند غریب و مسکین افراد کی مالکیت تھی ۔وہ اس سے دریا میں کام کرتے تھے ۔ میں نے سوچا کہ اس میں کوئی نقص ڈال دوں کیونکہ میں جانتا تھا کہ ایک ظالم بادشاہ ان کے پیچھے ہے اور وہ ہر صحیح سالم کشتی کو زبردستی ہتھیا لیتا ہے( اٴَمَّا السَّفِینَةُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِینَ یَعْمَلُونَ فِی الْبَحْرِ فَاٴَرَدْتُ اٴَنْ اٴَعِیبَھَا وَکَانَ وَرَائَھُمْ مَلِکٌ یَاٴْخُذُ کُلَّ سَفِینَةٍ غَصْبًا) ۔
گویاکشتی میں سوراخ کرنا ظاہراً برا لگتا تھا لیکن اس کام میں ایک اہم مقصد پوشیدہ تھا اور وہ تھا کشتی کے غریب مالکوں کو ایک غاصب بادشاہ کے ظلم سے بچانا کیونکہ اس کے نزدیک عیب دار کشتیاں اس کے کام کی نہ تھیں اور ایسی کشتیوں پر وہ قبضہ نہیں جماتا تھا ۔ خلاصہ یہ کہ یہ کام چند مسکینوں کے مفاد کی حفاظت کے لیے تھا اور اسے انجام پانا ہی چاہیے تھا ۔
لفظ”وَرَاء“(پیچھے) ۔ یقیناً یہاں مکانی پہلو نہیں رکھتا ۔ یہ تعبیر یہاں کنائے کے طور پر آئی ہے اور اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ وہ متوجہ ہوئے بغیر اس ظالم کے پھنس جاتے اور انسان چونکہ اپنے پس پشت ہونے والے واقعات سے بے خبر ہوتا ہے لہٰذا یہاں یہ تعبیر استعمال کی گئی ہے ۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ میرے قرض خواہ میرے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور مجھے چھوڑتے نہیں ۔ سورہٴ ابراہیم کی آیہ ۱۶ میں ہے:
<مِنْ وَرَائِہِ جَھَنَّمُ وَیُسْقَی مِنْ مَاءٍ صَدِیدٍ
”اور جہنم ان کے پیچھے ہے-----“
گویا جہنم ان کا تعاقب کر رہی ہے ۔ یہاں بھی وہی ”وَرَاء“ کی تعبیر آئی ہے ۔(3)
ضمناً لفظ ”مَسَاکِین“ سے یہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسکین وہ شخص نہیں ہے کہ جس کے پاس بالکل کوئی چیز نہ ہو بلکہ ایسے شخص کو بھی مسکین کہا جاتا ہے جس کے پاس اتنا مال ہو کہ جو اس کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہو ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ انھیں مالی حوالے سے ”مساکین“ نہ کہا گیا ہو بلکہ طاقت کے حوالے سے وہ مسکین اور فقیر ہوں اور عربی زبان میں یہ تعبیر موجود ہے اور یہ مفہوم مسکین کے اصلی معنی سے بھی مطابقت رکھتا ہے جس کے مطابق ساکن، کمزور اور ناتوان کو مسکین کہا جاتا ہے ۔
نہج البلاغہ میں ہے:
مسکین ابن اٰدم--- توٴلمہ البقة و تقتلہ الشرقة و تنتنہ العرقة
بے چارہ فرزند آدم --- مچھر اسے تکلیف پہنچا دیتا ہے ۔ تھوڑا سا پانی اس کے گلو میں اٹک جاتا ہے اور پسینہ آجائے تو اس سے بدبو آنے لگتی ہے ۔(۲)
اس کے بعد حضرت خضر(ع) لڑکے کے قتل کے مسئلے کی طرف آتے ہیں کہتے ہیں: ”رہا وہ لڑکا، تو اس کے ماں باپ صاحبِ ایمان تھے ۔ ہمیں یہ بات اچھی نہ لگی کہ وہ اپنے ماں باپ کو راہِ ایمان سے بھٹکا دے اور سرکشی و کفر پر ابھارے“ ( وَاٴَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ اٴَبَوَاہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِینَا اٴَنْ یُرْھِقَھُمَا طُغْیَانًا وَکُفْرًا) ۔
بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ یہاں یہ مراد نہیں کہ کافر و سرکش لڑکا اپنے مومن ماں باپ کو منحرف نہ کردے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اپنی سرکشی اور کفر کی وجہ سے اپنے ماں باپ کو زیادہ اذیت نہ دے ۔ (۱) البتہ پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
بہر حال اس عالم نے اس لڑکے کو قتل کردیا اور اس لڑکے کے زندہ رہنے کی صورت میں اس کے ماں باپ کو آئندہ جو ناگوار واقعات پیش آنے والے تھے انھیں اس قتل کی دلیل قرار دیا ۔
انشاء اللہ ہم جلد اس داستان کے مختلف نکات پر تفصیلی بحث کریں گےاور حضرت خضر(ع) کے تمام کاموں کو احکام الٰہی اور منطقی حوالوں سے دیکھیں گے اور ”جرم سے قبل قصاص“ والے اعتراض کا جواب دیں گے ۔
”خشینا“ (ہمیں ڈرتھا کہ ایسا ہوگا) ۔ یہ بہت معنی خیز تعبیر ہے ۔ یہ تعمیر نشاندہی کرتی ہے کہ وہ عالم اپنے آپ کو لوگوں کے مستقبل کا ذمہ دار سمجھتا تھا اور وہ اس بات کے لیے تیار نہ تھا کہ صاحبِ ایمان ماں باپ اپنی جوان اولاد کے انحراف کی وجہ سے مصیبت سے دوچار ہوں ۔
ضمناً یہ بات بھی ہوجائے کہ لفظ ”خشینا“ (ہمیں خوف ہوا) یہاں ”ہمیں اچھا نہ لگا“ کے معنی میں آیا ہے کیونکہ علم و قدرت میں اس مقام کے حامل شخص کے لیے ایسے امور میں خوف و خطر نہیں ہوتا ۔ دوسرے لفظوں میں مقصد ناپسندیدہ کام سے بچنا ہے اور انسان اپنی فطرت کی بناء پر ناگوار امور سے بچنا چاہتا ہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ یہ لفظ یہاں ”علمنا“ (ہم نے چاہا) کے معنی میں ہو ۔ ابنِ عباس سے بھی اس کا یہی مفہوم منقول ہے ۔ یعنی: ہم نے جانا اور ہمیں معلوم ہوا کہ اگر یہ لڑکا زندہ رہ گیا تو اس کے ماں باپ کو ناگوار واقعہ دیکھنا پڑے گا ۔
رہا یہ سوال کہ ایک شخص کے لیے جمع متکلم کی ضمیر کیوں استعمال ہوئی ہے ۔ تو اس کا جواب واضح ہے اور وہ یہ کہ۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ہم قرآن میں ایسی ضمیر دیکھ رہے ہیں ۔ قرآنِ حکیم میں، اس کے علاوہ عربی زبان اور دوسری زبانوں کے محاورات میں بڑے لوگ کبھی گفتگو کرتے وقت جمع کی ضمیر استعمال کرتے ہیں اور یہ عام طور پر اپنے ما تحت افرا کو مختلف کاموں کی انجام دہی کے لیے مامور کرنے اور ایسے ہی دیگر مواقع پر ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے اور انسان اپنے ما تحت افراد کو ۔ 
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: ہم نے چاہا کہ ان کا رب ان کو اس کے بدلے زیادہ پاک اور زیادہ پر محبت اولاد عطا فرمائے

 ( فَاٴَرَدْنَا اٴَنْ یُبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا خَیْرًا مِنْہُ زَکَاةً وَاٴَقْرَبَ رُحْمًا) ۔
”اٴَرَدْنَا“ (ہم نے ارادہ کیا)ا ور ’ ’رَبھما“ (ان دونوں کا رب) ۔ یہ دونوں یہاں معنی خیز تعبیریں ہیں اور ہم جلد ان کے مقصد سے آگاہ ہوجائیں گے ۔
لفظ ”زکٰوة“ پاکیزگی اور طہارت کے معنی میں ہے اور اس کا یہاں وسیع مفہوم ہے اور اس میں ایمان اور عملِ صالح بھی شامل ہے ۔ اس میں دینی امور بھی شامل ہیں اور دنیاوی بھی اور شاید یہ تعبیر حضرت موسیٰ(ع) کا جواب ہو کیونکہ انھوں نے کہا تھا کہ آپ نے ”نفس زکیہ“ کو قتل کردیا ہے ۔ حضرت خضر(ع) نے جواب میں کہا کہ نہیں وہ پاکیزہ نہ تھا بلکہ ہم چاہتے تھے کہ اللہ اس کی بجائے انھیں پاکیزہ اولاد عطا کرے ۔
مختلف اسلامی کتب میں آنے والی احادیث میں یہ عبارت آئی ہے:
ابدلھا اللّٰہ بہ جاریة ولدٰت سبعین نبیاً
اللہ نے اس بیٹے کی جگہ انھیں ایک ایسی بیٹی عطا فرمائی کہ جس کی نسل سے ستر نبی پیدا ہوئے ۔(4)
آخری زیر بحث آیت میں تیسرے کام یعنی دیوار بنانے کے واقعے کا جواب ہے ۔ اس عالم نے اس واقعے کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا: رہی دیوار کی بات۔ تو وہ اس شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اس دیوار کے نیچے ان کا خزانہ چھپا ہوا تھا اور ان کا باپ ایک نیک اور صالح شخص تھا (وَاٴَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِ یَتِیمَیْنِ فِی الْمَدِینَةِ وَکَانَ تَحْتَہُ کَنزٌ لَھُمَا وَکَانَ اٴَبُوھُمَا صَالِحًا) ۔
تیراپروردگار چاہتا تھا کہ وہ بالغ ہوجائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں (فَاٴَرَادَ رَبُّکَ اٴَنْ یَبْلُغَا اٴَشُدَّھُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنزَھُمَا) ۔یہ تو تیرے رب کی طرف سے رحمت تھی (رَحْمَةً مِنْ رَبِّکَ) ۔اور ان کے نیک ماں باپ کی وجہ سے میں مامور تھا کہ اس دیوار کو تعمیر کروں کہ کہیں وہ گِر نہ جائے اور خزانہ ظاہر ہوکر خطرے سے دوچار نہ ہوجائے ۔
آخر میں انھوں نے چاہا کہ حضرت موسیٰ(ع) کا ہر قسم کا شک دور ہوجائے اور وہ یقین کرلیں کہ یہ سب کام ایک خاص منصوبے اور ذمہ داری کے تحت تھے ۔ لہٰذا انھوں نے کہا: اور میں نے یہ کام خود سے نہیں کیے بلکہ اللہ کے حکم کے تحت انجام دیئے (وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ اٴَمْرِی) ۔
جی ہاں! یہ تھے ان کاموں کے راز کہ جن پر صبر کی تم میں تاب نہیں تھی (ذٰلِکَ تَاٴْوِیلُ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا) ۔

 

۱۔ ”وراء“ کے معنی کے سلسلے میں تفسیرِ نمونہ جلد ۱۰ سورہ ابراہیم آیہ ۱۶ کے ذیل میں بحث کی گئی ہے ۔
۲۔ نہج البلاغہ۔ کلمات قصار جملہ ۴۱۹-
ُ3۔ پہلی تفسیر کے مطابق ”یرھق“کے دو مفعول ہیں ۔ پہلا ”ھما“ اور دوسرا ”طغیاناً“ اور دوسری تفسیر کی بنا پر ”طغیاناً“ اور ”کفراً“مفعول لاجلہ (مفعول لہ)ہیں ۔
4۔ نور الثقلین ج ۳ ص ۲۸۶ و ۲۸۷-