Tafseer e Namoona

Topic

											

									  تمام ارباب انواع کی نفی

										
																									
								

Ayat No : 1-7

: الفاتحة

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۱الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۲الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ۳مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ۴إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۵اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۶صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۷

Translation

عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے. ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے. وہ عظیم اوردائمی رحمتوں والا ہے. روزِقیامت کا مالک و مختار ہے. پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں ا ور تجھی سے مدد چاہتے ہیں. ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ. جو اُن لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہیں ان کا راستہ نہیں جن پر غضب نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہیں.

Tafseer

									تاریخ ادیان و مذاہب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح توحید سے منحرف لوگ ہمیشہ اس جہان  کے لئے ارباب انواع کے قائل تھے۔ اس غلط فکر کی بنیاد یہ تھی کہ ان کے گمان کے مطابق موجودات کی ہر نوع ایک مستقل رب نوع کی محتاج ہے جو اس نوع کی تربیت و رہبری کرتا ہے گویا وہ خدا کو ان انواع کی تربیت کے لئے کافی نہیں سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ عشق، عقل، تجارت اور جنگ جیسے امور کے لئے بھی رب نوعی کے قائل تھے۔ یونانی بارہ بڑے خداؤں کی عبادت کرتے تھے(جن میں سے ہر کوئی رب النوع تھا)۔ یونانیوں کے بقول وہ المپ کی چوٹی، بزم خدائی سجائے بیٹھے تھے ان میں سے ہر ایک انسان کی ایک صفت کا مظہر تھا۔ (بحوالہ: اعلام القرآن، ص ۲۰۲۔) 
ملک آشور کے  دارالحکومت، کلاہ میں لوگ پانی کے رب نوع، چاند کے رب نوع، سورج کے رب نوع اور زہرہ کے رب نوع کے قائل تھے۔ انہوں نے ہر ایک کیلئے الگ الگ نام  رکھے تھے اور ان سب کے اوپر ماردوک کو رب الارباب سمجھتے تھے۔ روم میں بھی بہت سے خدا مروج تھے۔ شرک، تعدد خدا اور ارباب انواع کا بازار شاید وہاں سب سے زیادہ گرم تھا۔ 
اہل روم تمام خداؤں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے : گھریلو خدا اور حکومتی خدا۔ خدایان حکومت سے لوگوں کو زیادہ لگاؤ نہ تھا (کیونکہ وہ ان کی حکومت سے خوش نہ تھے)۔ ان خداؤں کی تعداد بہت زیادہ تھی کیونکہ ہر خدا کی ایک خاص پوسٹ(post) تھی اور وہ محدود معاملات میں دخیل ہوتا تھا۔عالم یہ تھا کہ گھر کے دروازے کا ایک مخصوص خدا تھا بلکہ ڈیوڑھی اور صحن خانہ کا بھی الگ الگ رب النوع تھا۔ 
ایک مورخ کے بقول اس میں تعجب کی بات نہیں کہ رومیوں کے ۳۰ ہزار خدا ہوں ۔ جیسا کہ ان کے ایک بزرگ نے کہا تھا کہ ہمارے ملک کے خداؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ گذر گاہوں اور محافل میں وہ افراد قوم سے زیادہ ہیں۔ ان خداؤں میں سے زراعت، باورچی خانہ، غلہ خانہ، گھر، گیس، آگ، میوہ جات، دروازہ، درخت، تاک، جنگل، حریق، شہر روم کے بڑے دروازے اور قومی آتشکدہ کے رب نوع شمار کئے جاسکتے ہیں۔ (بحوالہ: تاریخ آلبر مالہ، ج۱ فصل ۴، تاریخ زم۔) 
خلاصہ یہ کہ گذشتہ زمانے میں انسان قسم قسم کے خرافات سے دست و گریباں تھا جیسا کہ اب بھی اس زمانے کی یادگار بعض خرافات باقی رہ گئے ہیں۔ 
نزول قرآن کے زمانے میں بھی بہت سے بتوں کی پوجا اور تعظیم کی جاتی تھی اور شاید وہ سب یا ان میں سے بعض پہلے ارباب انواع کے جانشین بھی ہوں۔ 
علاوہ از ایں بعض اوقات تو خود انسان کو بھی عملی طور پر رب قرار دیاجاتا رہا ہے ۔ جیسا کہ ان لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے جو احبار(علمائے یہود) اور رہبانیوں(تارک الدنیا مرد اور عورتیں) کو اپنا رب سمجھتے تھے۔ قرآن کہتا ہے : 
اتخذوا احبارھم و رھبانہم اربابا من دون اللہ۔ (توبہ، ۳۱)
انہوں نے خدا کو چھوڑ کر علماء اور راہبوں کو خدا بنا رکھا تھا۔ 
بہرحال علاوہ اس کے کہ یہ خرافات انسان کو عقلی پستی کی طرف لے گئے تھے، تفرقہ پسندی، گروہ بندی اور اختلافات کاسبب بھی تھے ۔ پیغمبران خدا بڑی پامردی سے ان کے مقابلے میں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ بسم اللہ کے بعد پہلی آیت جو قرآن میں آئی ہے وہ اسی سلسلے سے تعلق رکھتی ہے: الحمد للہ رب العالمین یعنی تمام تعریفیں مخصوص ہیں اس خدا کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس طرح قرآن نے تمام ارباب انواع پر خط تنسیخ کھینچ دیا اور انہیں ان کی اصلی جگہ وادی عدم میں بھیج دیا اور ان کی جگہ توحید و یگانگی اور ہمبستگی و اتحاد کے پھول کھلائے۔ 
قابل توجہ بات یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ روزانہ اپنی شب وروز کی نمازوں میں کم از کم دس مرتبہ یہ جملہ پڑھیں اور اس اللہ کے سایہ رحمت میں پناہ لیں جو ایک اکیلا خدا ہے، جو تمام موجودات کا مالک، رب، سرپرست اور پرورش کرنے والا ہے تا کہ کبھی توحید کو فراموش نہ کریں اور شرک کی پر پیچ راہوں میں سرگرداں نہ ہوں۔