Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ پہاڑ کیوں منہدم ہوں گے؟

										
																									
								

Ayat No : 47-49

: الكهف

وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْأَرْضَ بَارِزَةً وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا ۴۷وَعُرِضُوا عَلَىٰ رَبِّكَ صَفًّا لَقَدْ جِئْتُمُونَا كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّنْ نَجْعَلَ لَكُمْ مَوْعِدًا ۴۸وَوُضِعَ الْكِتَابُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَيَقُولُونَ يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هَٰذَا الْكِتَابِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَاهَا ۚ وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا ۗ وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا ۴۹

Translation

اور قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم پہاڑوں کو حرکت میں لائیں گے اور تم زمین کو بالکل کھلا ہوا دیکھو گے اور ہم سب کو اس طرح جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے. اور سب تمہارے پروردگارکے سامنے صف بستہ پیش کئے جائیں گے اورارشاد ہوگا کہ تم آج اسی طرح آئے ہو جس طرح ہم نے پہلی مرتبہ تمہیں پیدا کیا تھا لیکن تمہارا خیال تھا کہ ہم تمہارے لئے کوئی وعدہ گاہ نہیں قرار دیں گے. اور جب نامئہ اعمال سامنے رکھا جائے گا تو دیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اور کہیں گے کہ ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتا ہے.

Tafseer

									۱۔ پہاڑ کیوں منہدم ہوں گے؟

ہم کہہ چکے ہیں کہ قیامت کے آغاز میں مادی دنیا کا نظام در ہم بر ہم ہوجائے گا ۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ۔ البتہ اس سلسلے میں قرآن میں مختلف تعبیریں دکھائی دیتی ہیں ۔
زیرِ بحث آیات میں ہے:
”نسیر الجبال“
یعنی ۔ ہم پہاڑوں کو حرکت میں لائیں گے اور انھیں چلائیں گے ۔
یعنی تعبیر سورہٴ نباء کی آیت ۲۰ اور سورہٴ تکویر کی آیت ۳ میں بھی نظر آتی ہے ۔ لیکن سورہٴ مرسلات کی آیت ۱۰ میں ہے:
<وَ اِذَا الْجِبَالُ نُسِفَت
”شدید طوفانوں کے باعث پہاڑ اپنی چگہ سے اکھڑ جائیں گے اور الگ ہوجائیں گے“۔
جبکہ سورہ حاقہ کی آیت ۱۴ میں ہے:
<وَحُمِلَتْ الْاٴَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّةً وَاحِدَةً
”زمین اور پہاڑ اپنی چگہ سے اٹھ جائیں گے اور ایک دوسرے سے ٹکڑاجائیں گے“۔
سورہ مزمل کی آیت ۱۴ میں ہے:
<یَوْمَ تَرْجُفُ الْاٴَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتْ الْجِبَالُ کَثِیبًا مَھِیلاً
”وہ دن کہ جب زمین اور پہاڑوں میں لرزہ پیدا ہوگا اور پہاڑ ریت کے ملے ہوئے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے“۔
سورہٴ واقعہ کی آیت ۵،۶ میں ہے:
<وَبُسَّتْ الْجِبَالُ بَسًّا، فَکَانَتْ ھَبَاءً مُنْبَثًّا
”پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور پھر گرد و غبار کی طرح بکھر جائیں گے“۔
بالآخر سورہٴ قارعہ کی آیت ۵ میں ہے:
< وَتَکُونُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنفُوشِ
”اور پہاڑ رنگی ہوئی دُھنی ہوئی اُون کی مانند ہوں گے (کہ جو اِدھر اُدھر بکھر جاتی ہے)“۔
واضح ہے کہ ان آیات میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ پہاڑوں کے درہم برہم ہونے کے مختلف مراحل کی طرف مختلف اشارے ہیں ۔
پہاڑ اس زمین کا محکم ترین اور مضبوط ترین حصّہ ہے ۔ معاملہ ان کی حرکت اور چلنے سے شروع ہوگا ۔ یہاں تک کہ وہ گرد و غبار بن کریوں اڑیں گے کہ فضا میں ان کا صرف رنگ نظر آئے گا ۔
یہ اتنی بڑی حرکت کیسے پیدا ہوگی، یقینا اس کا ہمیں علم نہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ زمین کی کششِ ثقل وقتی طور پر اٹھالی جائے اور زمین کی دَوری حرکت کے سبب پہاڑ در ہم برہم ہوجائیں اور فضاؤں میں بکھر جائیں ۔ یا ہوسکتا ہے بڑے بڑے اٹیمی دھماکوں کے باعث زمین کے مرکز میں ایسی عظیم اور وحشت ناک حرکت پیدا ہوجائے ۔
بہر حال یہ سب امور اس بات کی دلیل ہیں کہ قیامت ایک بہت بڑے انقلاب کی حامل ہے ۔ عالم کے بے جان مادہ میں بھی انقلاب پیدا ہوگا اور انسانوں کی زندگی میں بھی ۔ سب انسان جہانِ نو میں بلند تر زندگی شروع کریں ۔ روح اور جسم تو اس دنیا میں بھی ہوگی لیکن وہاں اس کی بناوٹ ہر لحاظ سے وسیع تر اور کامل تر ہوگی ۔
قرآن کی یہ تعبیر ضمنی طور پر انسان کو اس حقیقت کی طرف بھی متوجہ کرتی ہے کہ باغ اور پانی تو معمولی چیز ہیں، بڑے بڑے پہاڑ تک ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جائیں گے ۔ اس طرح دنیا کی تمام کی تمام موجودات یہاں تک کہ جو بہت بڑی بڑی چیزیں ہیں سب کے لیے فنا ہے ۔