Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ دنیا کی ناپائیدار خوشنمایاں

										
																									
								

Ayat No : 45-46

: الكهف

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُقْتَدِرًا ۴۵الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا ۴۶

Translation

اور انہیں زندگانی دنیا کی مثال اس پانی کی بتائیے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا تو زمین کی روئیدگی اس سے مل جل گئی پھر آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوگئی جسے ہوائیں اڑادیتی ہیں اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے. مال اور اولاد زندگانی دنیا کی زینت ہیں اور باقی رہ جانے والی نیکیاں پروردگار کے نزدیک ثواب اور امید دونوں کے اعتبار سے بہتر ہیں.

Tafseer

									۱۔ دنیا کی ناپائیدار خوشنمایاں:

زیرِ نظر آیات میں ایک مرتبہ پھر معانی کو مثال کے پیرائے میں مجسم کرکے پیش کیا جاراہا ہے ۔ وہ عقلی حقائق جن کا ادراک شاید بہت سے لوگوں کے لیے اتنا آسان نہیں ہے، قرآن مجید انھیں ایک زندہ اور واضح مثال کے ذریعے محسوسات کے قریب لے آتا ہے ۔
قرآن انسانوں سے کہتا ہے: اپنی زندگی کا آغاز و انجام کا منظر ہر سال تم دیکھتے ہو ۔ اگر تمھاری عمر ساٹھ سال ہے تو یہ منظر تم نے ساٹھ مرتبہ دیکھا ہے ۔ تم دیکھتے ہوکہ ہر موسمِ بہار میں ویرانے ، دل انگیز اور خوبصورت مناظر میں بدل جاتے ہیں اور ان کے ہر گوشے سے زندگی کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں لیکن فصلِ خزاں میں سر سبز وادیاں ویرانوں اور صحراؤں میں بدل جاتی ہیں اور ان کے ہر گوشے سے موت کے آثار نمایاں نظر آنے لگتے ہیں ۔
جی ہاں! تم بھی ایک دن بچے تھے، نو شگفتہ غنچے کی طرح۔ پھر تم جوان ہوجاتے ہو تر و تازہ اور کھلے ہوئے پھول کی مانند۔ پھر طوفانِ اجل تمھیں کاٹ دیتا ہے ۔ پھر چند دنوں کے بعد تمھاری بوسیدہ مٹی طوفانوں کے دوش پر اِدھر اُدھر بکھر جاتی ہے ۔
لیکن یہ واقعہ کبھی غیر طبیعی صورت میں بھی پیش آجاتا ہے ۔ بیچ راہ ہی میں بجلی یا طوفان اس زندگی کو ختم کردیتا ہے، اس طرح سے جیسے سورہٴ یونس کی آیہ ۲۴ میں آیا ہے:
<إِنَّمَا مَثَلُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا کَمَاءٍ اٴَنْزَلْنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الْاٴَرْضِ مِمَّا یَاٴْکُلُ النَّاسُ وَالْاٴَنْعَامُ حَتَّی إِذَا اٴَخَذَتْ الْاٴَرْضُ زُخْرُفَھَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ اٴَھْلُھَا اٴَنَّھُمْ قَادِرُونَ عَلَیْھَا اٴَتَاھَا اٴَمْرُنَا لَیْلًا اٴَوْ نَھَارًا فَجَعَلْنَاھَا حَصِیدًا کَاٴَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْاٴَمْسِ۔
دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہے کہ ہم نے آسمان سے پانی برسایا جس سے طرح طرح کے نباتات اُگتے ہیں جنھیں انسان اور چوپائے کھاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ زمین اپنا حُسن و زیبائی ان سے لے لیتی ہے ۔ ان کے مالک مطمئن ہوتے ہیں، کہ اچانک رات کو یادن کو ہمارا حکم آپہنچتا ہے (ہم ان پر سردی یا بجلی کو مسلط کردیتے ہیں)اور انھیں یوں کاٹ کے رکھ دیتے ہیں گویا وہ تھے ہی نہیں ۔
لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیچ راہ میں پیش آنے والے حوادث ان نباتات کو تباہ نہیں کرتے اور وہ اپنا طبیعی سفر پورا کرلیتے ہیں البتہ ان کا انجام بہرحال پژمردگی، پراگندگی اور فنا ہے، جیسا کہ زیرِ بحث آیت میں اشارہ ہوا ہے ۔ لہٰذا دنیاوی زندگی اپنا طبیعی سفر پورا کرے یا نہ کرے جلد یا بدیر دستِ فنا اُس کا دامن آپکڑے گا ۔