شان نزول
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا ۲۸وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا ۲۹إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا ۳۰أُولَٰئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۚ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا ۳۱
اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلب گار ہیں اور خبردار تمہاری نگاہیں ان کی طرف سے پھر نہ جائیں کہ زندگانی دنیا کی زینت کے طلب گار بن جاؤ اور ہرگز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کردیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کا پیروکار ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے. اور کہہ دو کہ حق تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اورجس کا جی چاہے کافر ہوجائے ہم نے یقینا کافرین کے لئے اس آگ کا انتظام کردیا ہے جس کے پردے چاروں طرف سے گھیرے ہوں گے اور وہ فریاد بھی کریں گے تو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح کے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جائے گی جو چہروں کو بھون ڈالے گا یہ بدترین مشروب ہے اور جہنم ّبدترین ٹھکانا ہے. یقینا جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ہم ان لوگوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے ہیں جو اچھے اعمال انجام دیتے ہیں. ان کے لئے وہ دائمی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی انہیں سونے کے کنگنپہنائے جائیں گے اور یہ باریک اور دبیز ریشم کے سبز لباس میں ملبوس اور تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے یہی ان کے لئے بہترین ثواب اورحسین ترین منزل ہے.
مندرجہ بالا آیات میں سے کچھ کی شان نزول کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ کچھ سرمایہ دار متکبر، خود غرض اشراف خدمتِ رسول میں حاضر ہوئے ۔ وہ سلمان ، ابوذر، صہیب اور خباب و غیرہ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے:اے محمد! اگر تو کسی محفل میں صدر نشین ہو اور ایسے افراد کہ جن کی بدبو انسانی مشام کو اذیّت پہنچاتی ہے اور جنھوں نے سخت اونی لباس پہن رکھے ہیں اپنے سے دور کردے(یعنی مجلس میں اشراف اور بڑے لوگ ہوں) تو ہم تیرے پاس آئیں گے، تیری مجلس میں بیٹھیں گے اور تیری باتوں سے فائدہ اٹھائیں گے لیکن ان لوگوںکے ہوتے ہوئے تو ہم یہاں نہیں بیٹھ سکتے ۔
اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو حکم دیا گیا کہ ان پر فریب کھو کھلی باتوں کی طرف ہرگز مائل نہ ہوں اور زندگی کے ہر دور میں ہمیشہ با ایمان، پاک دل افراد کے ساتھ رہیں کہ جو سلمان و ابوذر جیسے ہوں اگر چہ ان کا ہاتھ ثروت دنیا سے خالی ہو اور ان کا لباس کھُردرا ہو ۔
ان آیات کے نزول کے بعد رسول الله ان افرادکی تلاش کے لیے اٹھے ۔( یہ مخلص مومنین ان سرمایہ داروں کی باتیں سن کر ناراض تھے اور مسجد کے ایک گوشے میں جاکر عبادت پروردگار میں مشغول ہوگئے تھے) ۔
آخر کار رسول الله نے انھیں مسجد کے آخری حصّے میں پالیا ۔ وہ لوگ ذکر الٰہی میں مشغول تھے ۔
آپ نے فرمایا: حمد ہے اس خدا کے لیے جس نے موت سے پہلے یہ حکم دیا کہ تم جیسے لوگوں کے ساتھ رہوں ۔
”معکم المحیا و معکم الممات“
”تمھارے ساتھ جینا اور تمھارے ساتھ مرنا ہی اچھا ہے“۔