۲۔”غار“ کہاں ہے؟
وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا ۲۵قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ۖ لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا ۲۶وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا ۲۷
اور یہ لوگ اپنے غار میں تین سو برس رہے اور اس پر نو دن کا اضافہ بھی ہوگیا. آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ان کی مدّاُ قیام سے زیادہ باخبر ہے اسی کے لئے آسمان و زمین کا سارا غیب ہے اور اس کی سماعت وبصارت کا کیا کہنا ان لوگوں کے لئے اس کے علاوہ کوئی سرپرست نہیں ہے اورنہ وہ کسی کو اپنے حکم میں شریک کرتا ہے. اور جو کچھ کتاب پروردگار سے وحی کے ذریعہ آپ تک پہنچایا گیا ہے آپ اسی کی تلاوت کریں کہ کوئی اس کے کلمات کو بدلنے والا نہیں ہے اور اس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا ٹھکانا بھی نہیں ہے.
۲۔”غار“ کہاں ہے؟:
یہ کہ اصحابِ کہف کس علاقہ میں رہتے تھے اور یہ غار کہاں تھی، اس سلسلے میں علماء اور مفسرین کے در میان بہت اختلاف ہے ۔ البتہ اس واقعے کے مقام کو صحیح طور پر جاننے کا اصل داستان، اس کی تربیتی پہلووٴں اور تاریخی اہمیت پرکوئی خاص اثر نہیں پڑتا ۔ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں کہ جس کی اصل داستان تو ہمیں معلوم ہے لیکن اس کی زیادہ تفصیلات معلوم نہیں ہیں لیکن مسلّم ہے کہ اس واقعے کا مقام جاننے سے اس کی خصوصیات کومزید سمجھنے کے لیے مفید ہوسکتا ہے ۔
بہر حال اس سلسلے میں جو احتمالات ذکر کیے گئے او رجو اقوال نظر سے گزرے ہیں ان میں سے دور زیادہ صحیح معلوم ہوتے ہیں ۔
پہلا یہ کہ یہ واقعہ شہر”افسوس“ میں ہوا اور یہ غار اس شہر کے قریب واقع تھی ۔ ترکی میں اب بھی اس شہر کے کھنڈرات ازمیر کے قریب نظر آتے ہیں ۔وہاں قریب ایک قصبہ ہے جس کا نام”ایاصولوک“ ہے اس کے پاس ایک پہاڑ ہے’ینایر داغ“ اب بھی اس میں ایک غار نظر آتی ہے جو ”افسوس“ شہر سے کوئی زیادہ فاصلے پر نہیں ہے ۔
یہ ایک وسیع غار ہے ۔کہتے ہیں اس میں سینکڑوں قبروں کے آثار نظر آتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اصحابِ کہف کی غار یہی ہے ۔
جیسا کہ جاننے والوں نے بیان کیا ہے کہ اس غار کا دہانہ شمال مشرق کی جانب ہے ۔ اس وجہ سے بعض بزرگ مفسرین نے اس بارے میں شک کیا ہے کہ وہی غار ہے حالانکہ اس یہی کیفیت اس کے اصلی ہونے کی موٴید ہے کیونکہ طلوع کے وقت سورج کا دائیں طرف اور غروب کے وقت بائیں طرف ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ غار کا دہانہ شمال یا کچھ شمال شمال کی جانب ہو ۔
اس وقت وہاں کسی مسجد یا عبادت خانہ کا نہ ہونا بھی اس کے وہی غار ہونے کی نفی نہیں کرتا کیونکہ تقریباً سترہ صدیاں گزرنے کے بعد ممکن ہے اس کے آثار مٹ گئے ہوں ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ وہ غار ہے کہ جو اُردن کے دار الحکومت عمان میں واقع ہے ۔ یہ غار ”رجیب“نامی ایک بستی کے قریب ہے ۔ اس غار کے اوپر گرجے کے آثار نظر آتے ہیں ۔ بعض قرائن کے مطابق ان کا تعلق پانچویں صدی عیسوی سے ہے ۔ جب اس علاقے پر مسلمانوں کو غلبہ ہوا تو اسے مسجد میں تبدیل کرلیا گیا تھا اور وہاں محراب بنائی گئی تھی اور اذان کی جگہ کا اضافہ کیا گیا تھا ۔ یہ دونوں اس وقت موجود ہیں ۔