۲۔ اصلاح کنندہ تقیہ
وَكَذَٰلِكَ بَعَثْنَاهُمْ لِيَتَسَاءَلُوا بَيْنَهُمْ ۚ قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هَٰذِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلْيَنْظُرْ أَيُّهَا أَزْكَىٰ طَعَامًا فَلْيَأْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِنْهُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ أَحَدًا ۱۹إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ أَوْ يُعِيدُوكُمْ فِي مِلَّتِهِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوا إِذًا أَبَدًا ۲۰
اور اس طرح ہم نے انہیں دوبارہ زندہ کیا تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں تو ایک نے کہا کہ تم نے کتنی مدت توقف کیا ہے تو سب نے کہا کہ ایک دن یا اس کا ایک حصہّ ان لوگوں نے کہا کہ تمہارا پروردگار اس مدّت سے بہتر باخبر ہے اب تم اپنے سکے دے کر کسی کو شہر کی طرف بھیجو وہ دیکھے کہ کون سا کھانا بہتر ہے اور پھر تمہارے لئے رزق کا سامان فراہم کرے اور وہ آہستہ جائے اورکسی کو تمہارے بارے میں خبر نہ ہونے پائے. یہ اگرتمہارے بارے میں باخبر ہوگئے تو تمہیں سنگسار کردیں گے یا تمہیں بھی اپنے مذہب کی طرف پلٹا لیں گے اور اس طرح تم کبھی نجات نہ پاسکو گے.
۲۔ اصلاح کنندہ تقیہ
مندرجہ بالا آیات کے الفاظ سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ کہف اس بات پر زور دیتے تھے کہ اس ماحول میں کسی کو ان کی پناہ گاہ کا پتہ نہ چلے کہ مبادا وہ لوگ انھیں بُت پرستی کا مذہب اختیار کرنے پر مجبور کریں پا پھر انھیں بُری طرح قتل کریں اور سنگسار کردیں ۔
وہ چاہتے تھے کہ ان کی کسی کو خبر نہ ہو تاکہ آئندہ کی جد وجہد کے لئے کم از کم اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے اپنی طاقت بچا کر رکھیں، یہ ایک قسم کا اصلاحی تقیہ ہے کیونکہ تقیہ کا مطلب ہے اپنی قوتوں کو فضول صرف کرنے سے بچانا اور اس کے لئے اپنے آپ کو چھپانا یا اپنے عقیدے کو چھپا کر اپنے آپ کو بچانا تاکہ ضرورت کے وقت موٴثر طریقے سے جد وجہد جاسکے ۔
واضح ہے کہ جس مقام پر عقیدہ چھپانے سے ہدف اور پروگرام کو نقصان پہنچتا ہو وہاں تقیہ ممنوع ہے وہاں سب کچھ ظاہر کرنا چاہیے ۔
لو بلغ ما بلغ
پھر جو کچھ ہوتا ہے ہونے دو ۔