جہر و اخفات میں اعتدلال کے دو پہلو
قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ۱۱۰وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا ۱۱۱
آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس طرح بھی پکارو گے اس کے تمام نام بہترین ہیں اور اپنی نمازوں کو نہ چلاکر پڑھو اورنہ بہت آہستہ آہستہ بلکہ دونوں کا درمیانی راستہ نکالو. اور کہو کہ ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس نے نہ کسی کو فرزند بنایا ہے اورنہ کوئی اس کے ملک میں شریک ہے اور نہ کوئی اس کی کمزوری کی بنا پر اس کاسرپرست ہے اورپھر باقاعدہ اس کی بزرگی کا اعلان کرتے رہو.
جہر و اخفات میں اعتدلال کے دو پہلو
جہر و اخفات میں اعتدال کا یہ اسلامی حکم ہمیں دو لحاظ سے متوجہ کرتا ہے:
پہلے اس نظر سے کہ ہم اپنی عبادات اس طرح سے انجام نہ دیں کہ دشمنوں کے ہاتھ بہانہ آجائے ۔ وہ تمسخر اڑانے لگیں یا اعتراض کرنے لگیں ۔ کیا ہی اچھا ہے کہ عبادت، متانت، سکون اور ادب کے ساتھ ہوکہ جس پر نہ صرف اعتراض نہ کیا جاسکے بلکہ اپنے شکوہ، آداب ارو عظمت کے لحاظ سے بھی نمونہ ہو ۔
کچھ لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ جب لوگ آرام کررہے ہیں اپنے جلسوں میں ایسے لاؤ ڈسپکر لگائیں کہ جن کی آواز کان پھاڑنے والی ہو اور اس طرح اپنے جلسوں کے وجود کی خبر دیں ۔ یہ لوگ اپنے خیالِ خام میں اس عمل کے ذریعے اسلام کی آواز دوسروں تک پہنچاتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف یہ اسلام کی آواز نہیں ہے بلکہ اسلام سے لوگوں کی دوری کا باعث ہے اور اس طرزِ عمل سے نتیجتاً دینی تبلیغات پر ضرب لگتی ہے ۔
اس حکم کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ عبادت ہمارے دوسرے اعمال کے لیے نمونہ بن جائے ۔ ہمارے تمام سماجی، سیاسی اور اقتصادی امور اسی آئینے میں انجام پائیں ۔ ان امور میں ہمیں ہر طرح کے افراط و تفریط اور تندروی و سہل انگاری سے بچنا چاہیےٴ اور ”وابتغ بین ذٰلک سبیلاً “(درمیانی راہ اختیار کرو)کو اصول ہر کہیں کار فرما ہونا چاہیےٴ۔
اب ہم سورہ بنی اسرائیل کی آخری آیت پر پہنچتے ہیں ۔ اس میں حمد کے ساتھ سورہ کا اختتام ہوتا ہے جیسے اس کی ذات پاک کی تسبیح کے ساتھ اس سورہ کی ابتداء ہوئی تھی۔ در حقیقت یہ آخری آیت اس سورہ کے تمام توحیدی مباحث اور مفاہیم کا نتیجہ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: کہہ دو: حمد مخصوص ہے اس خدا کے لیے جس کا کوئی بیٹا ہے نہ عالم ہستی کی حکومت و مالکیت میں جس کا کوئی شریک ہے اور نہ توانائی کے لیے اس کا کوئی سرپرست ہے( وَقُلْ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ یَکُنْ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ)۔اور وہ ایسی صفات کا حامل خدا ہے کہ ہر لحاظ سے تمہاری فکر سے برتر و بالاتر ہے لہٰذا اس کی بڑائی اور کبریائی کو سمجھو اور اس کی لامتناہی عظمت سے آشنائی حاصل کرو ( وَکَبِّرْہُ تَکْبِیرًا)۔