Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ وحدت شخصیت

										
																									
								

Ayat No : 85

: الاسراء

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا ۸۵

Translation

اور پیغمبر یہ آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ یہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا سا علم دیا گیا ہے.

Tafseer

									۲۔وحدت شخصیت :

استقلالِ روح کے بارے میں جو دوسری دلیل ذکر کی جاسکتی ہے وہ انسان کی پوری زندگی میں وحدت ِ شخصیت کا مسئلہ ہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم ہر چیز میں شک وتردد رکھتے ہیں تب بھی اس بات میں شک نہیں رکھتے کہ ”ہم وجود رکھتے ہیں“۔
”مَیں ہوں “اور اپنی ہستی کے بارے میں مجھے کوئی شک نہیں ہے اوراپنے وجود کے بارے میں میرا علم حضوری ہے حصولی نہیں یعنی میں اپنے آپ کے سامنے حاضر ہوں اور اپنے آپ سے جدا نہیں ہوں ۔
بہرحال اپنے آپ سے آگاہی ہماری واضح تعین معلومات میں سے ہے اور اس کے لئے کسی استدلال کی احتیاج نہیں، مشہور فرانسی فلسفی ڈیکارٹ نے اپنے وجود کے لئے جو معروف استدلال کی ہے وہ یہ ہے :
مَیں سوچ رہا ہوں پس مَیں ہوں ۔
یہ ایک اضافی اور غیر صحیح استدلال نظر آتا ہے کیونکہ اس نے اپنے وجود کو ثابت کرنے سے پہلے دو مرتبہ اپنے وجود کا اعتراف کیاہے ، ایک مرتبہ”مَیں“ کہہ کر اور دوسری مرتبہ ”رہا ہوں“ کہہ کر ۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ ”مَیں“ابتدائے عمر سے آخر عمر تک ایک اکائی سے زیادہ نہیں ہے، آج کا ”مَیں“وہی کل کا ”مَیں“ ،وہی بیس سال پہلے کا”مَیں“، بچپن سے لے کر اب تک ایک شخص سے زیادہ کچھ نہیں ہے،”مَیں“ وہی شخص ہوں کہ جو پہلے تھا اور آخرعمر تک یہی شخص رہوں گا ناکہ کوئی اور شخص، البتہ ”مَیں“ نے تعلیم حاصل کی اور ”مَیں“پڑھا لکھا ہوگیا،”مَیں“نے کمال وترقی کی منزل طے کی اور پھر بھی کروں گا لیکن پھر میں ”مَیں“ کوئی دوسرا آدمی نہیںہوگیا ، لہٰذا سب لوگ ابتدائے عمر سے لے کر آخر عمر تک مجھے ایک ہی آدمی جانتے ہیں ،میرا ایک ہی نام ہے اور وہی اسی شخص کا شناختی کارڈ وغیرہ ۔
ہم سوچیں اور دیکھیں کہ یہ موجود واحد کی جس میں ہماری ساری عمر پوشیدہ ہے کیا ہے؟ کیا یہ ہمارے بدن کے ذرات اور اور خلیوں یا دماغی سَیلوں اور ان کے فعل وانفعالات کا مجموعہ ہے ؟یہ دور ہماری زندگی میں بارہا بدلتے رہتے ہیں ، اور تقریباً ہر سات سال کے بعد ایک مرتبہ تمام سَیل بدل جاتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک روز وشب میں ہمارے بدن کے لاکھوں سَیل مرتے ہیں اور ان کی جگہ نئے سَیل لیتے ہیں، جیسے کسی پران عمارت کی پرانی اینٹیں نکلتے رہیں اور ان کی جگہ نئی اینٹیں لگاتے رہیں تو ایک عرصے بعد یہ عمارت بالکل بدل جائے گی اگرچہ عوم لوگوں کو اس کا اندازہ نہ ہو، جیسے کسی ایک بڑے تالاب کا پانی ایک تالاب سے نکلتا رہتا ہے اور دوسری طرف سے تازہ پانی داخل ہوتا رہتا ہے، واضح ہے کچھ عرصے بعد سارا پانی بدل جائے گا اگرچہ ظاہر میں افراد توجہ نہ کریں اور اسے پہلے والا ہی سمجھتے رہیں ۔ 
کلی طور پر ہر موجود جو غذا کو حاصل کرتا ہے اور غذا کا مصرف رکھتا ہے اس کی تعمیرِ نو کا سلسلہ جاری رہے گا اور وہ بدل جائے گا ۔
لہٰذا ایک ستر سالہ انسان کے تما اجزائے بدن تقریباً دس مرتبہ بدل چکے ہوتے ہیں، اگر ہم مادیین کی طرح انسان کو وہی جسم اور وہی داماغ واعصاب اور وہی اس کے طبیعیاتی وکیمیائی خواص سمجھیں تو یہ ”مَیں“ تو ستر سال کی عمر میں دس مرتبہ بدل چکا ہوں گا اور یہ وہی پہلے والا شخص نہیں ہوں گا حالانکہ کوئی عقل اس بات کو قبول نہیں کرے گی ۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ مادی اجزاء کی بجائے کوئی اور ایک واحد ثابت حقیقت ہے جو ساری عمر میں موجود رہتی ہے کہ یہ جو مادی اجزاء کی طرح بدلتی نہیں اور وہی دراصل بنیاد وجود ہے، وہی ہماری شخصیت کی وحدت کا عامل وباعث ہے ۔