۲۔ ”مقامِ محمود“ کیاہے؟
أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ۷۸وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَىٰ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا ۷۹وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا ۸۰وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ۸۱
آپ زوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کریں اور نماز صبح بھی کہ نماز صبح کے لئے گواہی کا انتظام کیا گیا ہے. اور رات کے ایک حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں یہ آپ کے لئے اضافہ خیر ہے عنقریب آپ کا پروردگار اسی طرح آپ کو مقام محمود تک پہنچادے گا. اور یہ کہئے کہ پروردگار مجھے اچھی طرح سے آبادی میں داخل کر اور بہترین انداز سے باہر نکال اور میرے لئے ایک طاقت قرار دے دے جو میری مددگار ثابت ہو. اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہوگیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے.
۲۔ ”مقامِ محمود“ کیاہے؟
جیسا کے الفاظ بتا رہے ہیں ”مقامِ محمود“ ایک وسیع معنی رکھتا ہے، اس میں ہر وہ مقام شامل ہے جا لائق تعریف وستائش ہے لیکن مسلم ہے کہ یہاں ایسے ممتاز اور انتہائی اعلیٰ مقام کی طرف اشارہ ہے کہ جو پیغمبرِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو عبادتِ شب، آہ ِ سحرگاہی اور دعائے نیم شب سے حاصل ہوا ہے ۔
مفسرین میں مشہور ہے اور ہم بھی پہلے کہہ چکے ہیںیہ آپ کے لئے مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے ۔
متعدد روایات میں بھی یہ تفسیر بیان ہوئی ہے، تفسیر عیاشی میں ہے کہ امام محمد باقر (علیه السلام) یا امام صادق علیہ السلام نے اس آیت”عسی ان یبعثک ربک مقامامحمودا“کی تفسیر میں فرمایا:
”ھی الشفاعة“
یہ شفاعت ہی ہے ۔
بعض مفسرین نے کوشش کی ہے کہ خودِ آیت کے مفہوم سے یہ حقیقت اخذ کریں، ان کا خیال ہے کہ”عسی ان یبعثک“اس بات کی دلیل ہے کہ یہ وہ مقام ہے جو خدا تجھے عطا کرے گا ایسا مقام کہ جو سب کو تعریف پر ابھارے گا کیونکہ سب کو اس سے فائدہ پہنچے گا، (کیونکہ زیرِ بحث جملے میں لفظِ”محمود“ مطلق طور پر آیاہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی قیدیا شرط نہیں ہے)۔
علاوہ ازیں تعریف وثنا ایک اختیاری عمل پرہوتی ہے اور اس میں صفات کی حامل چیز رسول اللہ کے عمومی مقامِ شفاعت کے سوا اور کوئی نہیں ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ مقام محمودپروردگار کے انتہائی قرب کا نام ہو کہ جس کے آثار میں سے ایک شفاعت کرنا بھی ہے ۔(غور کیجئے گا)
اس آیت میں اگرچہ ظاہراً رسول اللہ مخاطب ہیں لیکن اس حکم کو ایک لحاظ سے عمومیت دی جاسکتی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ تمام با ایمان افراد کو جو تلاوتِ شب اور نمازِ شب کے الٰہی روحانی کا کو انجام دیتے ہیں ”مقامِ محمود “ سے اپنا حصہ لیں گے اور اپنے ایمان وعمل کے حساب سے بارگاہِ قربِ الٰہی تک رسائی حاصل کریں گے اور اسی نسبت سے راستے بھولے بھٹکوں کے شفیع اور دستگیر ہوں گے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر مومن اپنے ایمان کی شعاع کے اعتبار سے مقامِ شفاعت سے ہمکنار ہوگا لیکن اس آیت کا اتم واکمل مصداق پیغمبر اکرم صلی اللهعلیہ وآلہ وسلّم کی ذاتِ گرامی ہے ۔