Tafseer e Namoona

Topic

											

									  باطل کا انجام نابودی ہے

										
																									
								

Ayat No : 78-81

: الاسراء

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ۷۸وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَىٰ أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا ۷۹وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا ۸۰وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ۸۱

Translation

آپ زوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کریں اور نماز صبح بھی کہ نماز صبح کے لئے گواہی کا انتظام کیا گیا ہے. اور رات کے ایک حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیں یہ آپ کے لئے اضافہ خیر ہے عنقریب آپ کا پروردگار اسی طرح آپ کو مقام محمود تک پہنچادے گا. اور یہ کہئے کہ پروردگار مجھے اچھی طرح سے آبادی میں داخل کر اور بہترین انداز سے باہر نکال اور میرے لئے ایک طاقت قرار دے دے جو میری مددگار ثابت ہو. اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہوگیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے.

Tafseer

									باطل کا انجام نابودی ہے
 
شرک کے مسائل پر گفتگو تھی، مشرکوں کی سازشوں اور وسوسوں کا ذکر تھا، زیرِ نظر آیات میں نماز، توجہ الی اللہ، عبادتِ خدا اور اس کے حضور میں تضرع وزاری کا ذکر ہے، یہ سب کچھ شرک کے مقابلے کے لئے موثر عامل ہے اور انسانی قلب وروح سے ہر قسم کی شیطانی وسوسے دور کرنے کا ذریعہ ہے ۔
جی ہاں!نماز ہی ہے جو انسان کو خدا کی یاد دلاتی ہے، انسانی قلب وروح سے غبارِ گناہ کو صاف کرتی ہے اور شیطانی وسوسوں کو دور کرتی ہے ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: زوالِ خورشید سے نصف شب تک نماز قائم کرواور اسی طرح قرآنِ فجر (یعنی نمازِ فجر)کیونکہ یہ وہ نماز ہے جس پر رات اور دن کے فرشتوں کی توجہ ہے( اٴَقِمْ الصَّلَاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلیٰ غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُودًا)۔
”دلوک الشمس“ کا معنی نصف النہار سے زوالِ آفتاب ہے کہ جو نمازِ ظہر کا وقت ہے ، یہ ”دلک“ کے مادہ سے لیا گیا ہے اس کا معنی ہے” ملنا“ کیونکہ اس موقع پر سرج کی شدتِ تپش کے باعث انسان اپنی آنکھوں کو ملاتا ہے یا پھر یہ ترکیب ”دلک“ سے مائل ہونے اور جھکنے کے معنی میں ہے چونکہ سورچ اس موقع پر مقامِ نصف النہار سے مغرب کی طرف جھکتا ہے یا یہ کہ انسان اپنے ہاتھ کو سورج کے سامنے حائل کرتا ہے گویا اس کی روشنی کو اپنی آنکھوں سے دور کرتا ہے اور آنکھ کو دوسری طرف مائل کرتا ہے ۔
بہرحال مصادرِ اہل بیت (علیه السلام) سے پہنچنے والی روایات میں ”دلوک“ کا معنی زوالِ آفتاب ہی کیا گیا ہے ۔