Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ”وسیلہ“ کیا ہے؟

										
																									
								

Ayat No : 53-57

: الاسراء

وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوًّا مُبِينًا ۵۳رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ ۖ إِنْ يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِنْ يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ ۚ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا ۵۴وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَىٰ بَعْضٍ ۖ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا ۵۵قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا ۵۶أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ۵۷

Translation

اور میرے بندوں سے کہہ دیجئے کہ صرف اچھی باتیں کیا کریں ورنہ شیطان یقینا ان کے درمیان فساد پیدا کرنا چاہے گا کہ شیطان انسان کا کِھلا ہوا دشمن ہے. تمہارا پروردگار تمہارے حالات سے بہتر واقف ہے وہ چاہے گا تو تم پر رحم کرے گا اور چاہے گا تو عذاب کرے گا اور پیغمبر ہم نے آپ کو ان کا ذمہ دار بناکر نہیں بھیجا ہے. اور آپ کا پروردگار زمین و آسمان کی ہر شے سے باخبر ہے اور ہم نے بعض انبیائ کو بعض پر فضیلت دی ہے اور داؤد کو زبور عطا کی ہے. اور ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ خدا کے علاوہ جن کا بھی خیال ہے سب کو بلالیں کوئی نہ ان کی تکلیف کو دور کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ ان کے حالات کے بدلنے کا. یہ جن کو خدا سمجھ کر پکارتے ہیں وہ خود ہی اپنے پروردگار کے لئے وسیلہ تلاش کررہے ہیں کہ کون زیادہ قربت رکھنے والا ہے اور سب اسی کی رحمت کے امیدوار اور اسی کے عذاب سے خوفزدہ ہیں یقینا آپ کے پروردگار کا عذاب ڈرنے کے لائق ہے.

Tafseer

									لفظ ”وسیلہ“ قرآن مجید میں دو مواقع پر استعمال ہوا ہے ۔ ایک آیات بالا میں اور دوسرا سورہ مائدہ کی آیہ ۳۵ میں ۔
جیسا کہ ہم سورہ مائدہ کی آیہ ۳۵ کے ذیل میں کہہ چکے ہیں ”وسیلہ“ قرب حاصل کرنے کے معنی میں یا اس چیز کے معنی میں جو قرب کا باعث بنے استعمال ہوتا ہے یا پھر اس کا مطلب ہے وہ نتیجہ جو قرب سے حاصل ہو۔
اس طرح سے ”وسیلہ“ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جس میں ہر اچھا کام اور ہر اچھی صفت شامل ہے کیونکہ یہ سب چیزیں قربِ پروردگار کا موجب ہیں ۔
نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۱۰ میں اس سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام کے انتہائی پُر مغز جملے ہیں:
بہترین وسیلہ کہ جس سے بندے قربِ خدا چاہتے ہیں خدا پر ایمان، قیام نماز، ادائیگی زکوٰة، ماہِ رمضان کے روزےن حج و عمرہ، صلہٴ رحمی، راہ خدا میں پنہاں و آشکار انفاق اور تمام نیک اعمال ہیں کہ جو انسان کو زوال اور پستی سے نجات دیں ۔ (1)
اسی طرح نبیوں، خدا کے نیک بندوں اور اس کی بارگاہ کے مقرب لوگوں کی شفاعت بھی اسی کے تقرب کا ایک وسیلہ ہے اور اس شفاعت کو آیاتِ قرآن میں صراحت سے بیان کیا گیا ہے ۔
غلط فہمی نہ ہو- بارگاہ ِپروردگار کے مقرب لوگوںسے توسل سے یہ مراد نہیں کہ انسان نبی یا امام سے مستقلاً تقاضا کرے یا اس مفہوم میں ان سے کسی مشکل کا حل چاہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کے راستے پر چلے، اُن کے پروگراموں سے ہم آہنگ ہوجائے اور ان کے مقام و منزلت کا واسطہ دے کر خدا کو پکارے تاکہ خدا شفاعت و سفارش کی اجازت دے ۔ (2)

 

۵۸ وَإِنْ مِنْ قَرْیَةٍ إِلاَّ نَحْنُ مُھْلِکُوھَا قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ اٴَوْ مُعَذِّبُوھَا عَذَابًا شَدِیدًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتَابِ مَسْطُورًا
۵۹ وَمَا مَنَعَنَا اٴَنْ نُرْسِلَ بِالْآیَاتِ إِلاَّ اٴَنْ کَذَّبَ بِھَا الْاٴَوَّلُونَ وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِھَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلاَّ تَخْوِیفًا
۶۰ وَإِذْ قُلْنَا لَکَ إِنَّ رَبَّکَ اٴَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی اٴَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُھُمْ فَمَا یَزِیدُھُمْ إِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیرًا

ترجمہ
۵۸۔ قیامت سے پہلے ہم ہر شہر اور آبادی کو ہلاک کریں گے یا (اگر گنہگار ہیں تو) انہیں سخت عذاب میں گرفتار کریں گے، یہ کتابِ الٰہی (لوح محفوظ) میں ثبت ہے ۔
۵۹۔ ہمارے لیے کوئی امر مانع نہیں کہ ہم (بہانہ ساز لوگوں کے تقاضوں پر) یہ معجزات بھجتے سوائے اس کے کہ گزرے ہوئے لوگوں نے (کہ جو اسی قسم کے تقاضے کرتے تھے اور انہی جیسے تھے انہوں نے) ان کی تکذیب کی۔ (انہی میں سے)ثمود کو ہم نے ناقہ دیا(اور وہ ایسا معجزہ تھا کہ) جو واضح اور روشن تھا لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا (اور ناقہ کو ہلاک کردیا) ہم معجزات صرف ڈرانے (اور اتمامِ حجت) کیلئے بھیجتے ہیں ۔
۶۰۔وہ وقت یاد کر جب ہم نے تجھ سے کہا کہ تیرا پروردگار لوگوں پر پوری طرح محیط ہے (اور ان کی کیفیت سے پوری طرح آگاہ ہے) ۔ہم نے جو خواب تجھے دکھایا تھا وہ صرف لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا ۔ اسی طرح جس شجرِ ملعونہ کا ہم نے قرآن میں ذکر کیا ہے، ہم انہیں ڈراتے (اور تنبیہ کرتے) ہیں لیکن ان کے طغیان و سرکشی کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں ہوتا ۔

 

1۔ تلخیص خطبہ ۱۰۰ نہج البلاغہ۔ اس کی تشریح ہم تفسیر نمونہ جلد ۴ ص ۲۷۶ (اردو ترجمہ) پر کرچکے ہیں ۔
2۔ مزید و ضاحت کے لیے تفسیر نمونہ جلد ۴ ص ۲۷۷ (اردو ترجمہ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔