Tafseer e Namoona

Topic

											

									  یا ایھا الذین امنوا کا دقیق مفہوم

										
																									
								

Ayat No : 104-105

: البقرة

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ۱۰۴مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ۱۰۵

Translation

ایمان والو! راعنا (ہماری رعایت کرو) نہ کہا کرو «انظرنامِ کہا کرو اور غور سے سنا کرو اور یاد رکھو کہ کافرین کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے. کافر اہلِ کتاب یہود و نصارٰی اور عام مشرکین یہ نہیں چاہتے کہ تمہارے او پر پروردگار کی طرف سے کوئی خیر نازل ہو حالانکہ اللہ جسے چاہتاہے اپنی رحمت کے لئے مخصوص کرلیتا ہے اور اللہ بڑے فضل و کرم کا مالک ہے.

Tafseer

									قرآن مجید میں ۸۹ مقامات پر یہ پر اعجاز اور روح پرور خطاب نظر آتاہے۔ مندرجہ بالا پہلی وہ آیات ہے جس میں اس خطاب سے عزت حاصل ہو رہی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ یہ تعبیر ان آیات کے ساتھ مخصوص ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی ہیں اور مکہ کی آیات میں اس کا نام و نشان تک نہیں ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پیغمبر اکرم کے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے مسلمانوں کی حالت میں ثابت قدمی آگئی تھی، وہ ایک مستقل اور با اثر جمعیت کی صورت میں نظر آنے لگے تھے اور انہیں پراگندگی سے نجات مل گئی تھی لہذا خداوند عالم نے انہیں (یا ایھا الذین امنوا) کے خطاب سے نوازاہے۔
 یہ تعبیر ضمنا ایک اور نکتے کی بھی حامل ہے اور وہ یہ کہ اب تم ایمان لے آئے ہو اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرچکے ہو اور اپنے اللہ سے اطاعت کا عہد و پیمان باندھ چکے ہو لہذا اس کے تقاضے کے مطابق اس جملے کے بعد جو حکم آرہاہے اس پر عمل کرو بہ الفاظ دیگر تمہارا ایمان تم پر لازم قرار دیتاہے کہ ان قوانین کے کاربند رہو۔
 توجہ طلب بات یہ ہے کہ بہت سی اسلامی کتب میں جن میں اہل سنت کی کتابیں بھی شامل ہیں، پیغمبر اسلام سے یہ ایک حدیث منقول ہے۔
 آپ نے فرمایا:
 ما انزل اللہ آیہ فیہا یا ایہا الذین امنوا الا و علی راسہا و امیرہا۔
 خدانے کسی مقام پر قرآن کی کوئی آیت نازل نہیں کی جس میں یا ایھا الذین امنوا ہو مگر یہ کہ اس کے رئیس و امیر حضرت علی ہیں۔
 ۱۰۶۔ مَا نَنسَخْ مِنْ آیَةٍ اٴَوْ نُنسِہَا نَاٴْتِ بِخَیْرٍ مِنْہَا اٴَوْ مِثْلِہَا اٴَلَمْ تَعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ 
 ۱۰۷۔ اٴَلَمْ تَعْلَمْ اٴَنَّ اللهَ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیر
 ترجمہ
 ۱۰۶۔ ہم کسی آیت کو منسوخ نہیں کرتے یا اس کے نسخ کو تاخیر نہیں ڈالتے مگر یہ کہ اس کی جگہ اس سے بہتر یا اس جیسی کوئی آیت لے آتے ہیں۔ کیاتم نہیں جانتے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
 ۱۰۷۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمینوں کی ملکیت خدا کے لئے ہے (اور وہ حق رکھتاہے کے مطابق احکام میں ہر قسم کا تغیر و تبدل کرسکے) اور خدا کے علاوہ تمہارا کوئی سرپرست اور یار و مددگار نہیں (اور وہی ہے جو تمہارے تمام مصالح کا تعین کرتاہے)۔
 تفسیر