چند اہم نکات
وَكُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنْشُورًا ۱۳اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ۱۴مَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا ۱۵
اور ہم نے ہر انسان کے نامئہ اعمال کو اس کی گردن میں آویزاں کردیا ہے اور روز قیامت اسے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح پیش کردیں گے. کہ اب اپنی کتاب کو پڑھ لو آج تمہارے حساب کے لئے یہی کتاب کافی ہے. جو شخص بھی ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے فائدہ کے لئے کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے وہ بھی اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے اور ہم تو اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں.
۱۔ اچھی اور بری فال:
کسی چیز یا کام سے نیک و بد فال لینا تمام قوموں میں تھا اور آج بھی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ اس کا سرچشمہ حقائق تک دسترس نہ ہونا اور واقعات کے اسباب و علل سے لا علمی ہے ۔
بہر حال اس میں شک نہیں کہ نیک یا بد فال کا کوئی طبیعی اثر نہیں ہے البتہ اس کا نفیساتی اثر ہوتا ہے ۔ لیکن فال امید آفریں ہوتی ہے جبکہ بد فال یاس، ناامیدی اور کمزوری کا موجب بنتی ہے ۔ اسلام چونکہ ہمیشہ اچھی چیزوں کا خیر مقدم کرتا ہے اس لیے اسلام نے نیک فال سے منع نہیں کیا، البتہ بد فال کی شدید مذمت کی ہے ۔ یہاں تک کہ بعض روایات میں اسے سرحد شرک میں شمار کیا گیا ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
الطیرة شرک
بری فال لینا(اور خدا کے مقابلے میں اسے اپنی قسمت میں موثر جاننا) ایک قسم کا خدا کی ذات میں شرک کرنا ہے ۔
اس سلسلے میں چھٹی جلد میں ہم سورہٴ اعراف میں آیت ۱۳۱ کے ذیل میں گفتگو کر چکے ہیں ۔یہ بات جاذب نظر ہے کہ صحیح او راصلاح پہلووں سے اس قسم کے تخیلاتی امور سے اسلام نے بھی فائدہ اٹھایا ہے ۔
مثلاًعمو ماً کہا جاتا ہے کہ فلاں دلہن خوش قدم تھی یا بَد قدم تھی۔جس دن سے اس نے فلاں شخض کے گھر میں قدم رکھا ہے وہ ایساہو گیاہے ۔ یہ ایک فضول بات سے زیادہ نہیں ہے ۔لیکن اسلام نے اسے تعمیری اور اصلاحی شکل دی ہے ۔ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
من شوم المرئة غلاء مھرھا وشدة مئونتھ----
عورت کی ایک نحوست یہ ہے کہ اس کاحق مہرزیادہ ہو اور اخراجات بھاری ہوں----(۱)
ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ(ص) وسلم سے منقول ہے:
اما الدار فشومھا ضیقھا وخبث جیرانھا
منحوس گھر وہ ہے کہ جو تنگ وتاریک ہو اور جس کے ہمسائے برے لوگ ہوں ۔ (۲)
خوب غور کریں کہ وہی الفاظ جنہیں لوگ غلط اور بے ہودہ مفاہیم کے لیے استعمال کرتے ہیں انہیں حقیقی اور اصلاح مفاہیم کے لیے صرف کیا گیا ہے اور بے راہ روی کی طرف جانے والے خیال و افکار کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کی گئی ہے ۔
اس بحث کی موید رسول صلی الله علیہ وآلہ(ص) وسلم کی ایک حدیث پر ہم اپنی اس گفتگو کو ختم کرتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں:
اللّٰھم لاخیر الّا خیرک، ولا طیر الّا طیرک ولا رب غیرک
بار الہا!خیر وہی ہے جو تیری طرف سے ہوا اور کوئی اچھی بری فال تیرے ارادے کے بغیر کچھ نہیں اور تیری علاوہ کوئی رب نہیں ۔
۲۔ انسان کا عجیب اعمال نامہ:
قرآن حکیم کی بہت سی آیات اور روایات میں انسانوں کے نامہ اعمال کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔ مجموعی طور پر ان آیات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے تمام اعمال اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ ایک رجسٹر میں لکھے جاتے ہیں اور اگر انسان نیک ہوا تو روز قیامت اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور اگر برا ہوا تو بائیں ہاتھ میں ۔
سورہ ٴحاقہ میں ہے:
<فَاٴَمَّا مَنْ اٴُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ فَیَقُولُ ھَاؤُمْ اقْرَئُوا کِتَابِی
جسے اس نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں تھما یا جائے گا فخر سے کہے گا کہ آئیے اور ہمارا نامہٴ اعمال پڑھیے ۔ (حاقہ۔۱۹)
نیز یہ بھی فرمایا ہے:
<وَاٴَمَّا مَنْ اٴُوتِیَ کِتَابَہُ بِشِمَالِہِ فَیَقُولُ یَالَیْتَنِی لَمْ اٴُوتَ کِتَابِی
لیکن جسے اس نامہٴ اعمال بائیں ہاتھ میں تھما یا جائے گا وہ کہے گا: اے کاش! میر نامہٴ اعمال مجھے نہ تھما یا جاتا ۔ (حاقہ۔ ۲۵)
سورہ کہف کی آیت ۴۹ میں ہے:
<وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیہِ وَیَقُولُونَ یَاوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتَابِ لَایُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلَاکَبِیرَةً إِلاَّ اٴَحْصَاھَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَایَظْلِمُ رَبُّکَ اٴَحَدًا
بنی آدم کے اعمال نامے کھول دیئے جائیں گے تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کی تحریر سے خوف کھائیں گے اور کہیں گے! ہائے ہم پر افسوس! یہ کیسی کتاب ہے کہ اس میں کوئی چھوٹا بڑا گناہ شمار کیے بغیر نہیں چھوڑا گیا اور جو کچھ انہوں نے انجام دیا تھا اسے موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا ۔
ایک حدیث میں زیر بحث آیت”اقرء کتابک---“کے ذیل میں اما م صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
یذکر العبد جمیع ما عمل، وما کتب علیہ، حتی کانہ فعلہ تلک الساعة، فلذلک قالوا یا ویلتنا ما لہٰذا الکتاب لایغادر صغیرة ولا کبیرة الّا اٴحصاھ-
جو کچھ انسان انجام دے چکا ہے اور اس کے نامہٴ اعمال میں درج ہے سبب کچھ اسے یاد آجائے گا اور اس طرح سے کہ جیسے اس نے ابھی ابھی انجام دیا ہے لہٰذا مجرمین پکاریں گے اور کہیں گے کہ یہ کیسی کتاب ہے کہ جس نے کوئی چھوٹا بڑا گناہ لکھے بناء نہیں چھوڑا ۔ (3)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نامہٴ اعمال کیا ہے اور کیسا ہے ۔ظاہر ہے کہ وہ عام کتاب، یار جسٹر یا فائل کی طرح کا تو نہیں ہوگا ۔ اس لیے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ نامہٴ اعمال”روح انسان“ کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے کہ جس میں تمام اعمال کے آثار ثبت ہیں ۔ (4) کیونکہ ہم جو بھی عمل انجام دیتے ہیں وہ لازمی طور پر ہماری روح پر اثر مرتب کرتا ہے ۔ یا یہ کہ یہ نامہٴ اعمال ہمارے جسم کے اعضاء اور گوشت پوست اور اس کے گرد کی زمین، ہوا اور فضا ہے کہ جس میں ہم اعمال انجام دیتے ہیں کیونکہ ہمارے اعمال ہمارے جسم پر اثرات مرتب کرنے کے علاوہ ہوا اور زمین پر بھی اثر چھوڑتے ہیں اگر چہ اس دنیا میں ہم ان آثار کو محسوس کر نہیں سکتے لیکن بلاشبہ وہ موجود ہوتے ہیں اور روز قیامت کہ جب ہمیں ایک نئی قوت ادراک حاصل ہوگی، ہم دیکھ سکیں گے ۔
سطورِ بالا میں جو تفسیر بیان ہوئی ہے اس کے بارے میں لفظ”اقراٴ“ (پڑھ) سے غلط فہمی پیدا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ پڑھنے کا بھی ایک وسیع مفہوم ہے اور اس میں ہر قسم کا مشاہدہ شامل ہے ۔ مثلاً روز مرہ کی گفتگو میں ہم کبھی کبھی کہتے ہیں:”میں نے اس کی آنکھوں سے پڑھ لیا ہے کہ اس کا ارادہ کیا ہے“ یا ”فلاں آدمی کے فلاں کام سے میں نے باقی بات پڑھ لی ہے ۔“ اسی طرح بیماروں کے ایکس رے کو دیکھنے کے لیے بھی پڑھنے کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں ہے کہ اس کے نامہ اعمال کے مندرجات کسی طرح بھی قابلِ انکار نہیں ہیں کیونکہ وہ خود عمل کے حقیقی اور تکوینی آثار ہیں ۔بالکل انسان کی ٹیپ شدہ آواز کی طرح اور یا اس کی انگلی کے نشان کی طرح۔
۳۔ گنگار کے ساتھ بے گناہ نہیں جلے گا:
عوام میں مشہور ہے کہ جب آگ لگتی ہے تو خشک و تر سب کچھ جل جاتا ہے ۔ لیکن منطق، عقل اور تعلیمات انبیاء کے مطابق کسی بے گناہ کو کسی دوسرے کے گناہ کی وجہ سے سزا نہیں ملے گی قوم لوط کے تمام شروں میں صرف ایک گھر ایمان والوں کا تھا ۔ جب الله نے اس منحرف اور غلیظ قوم پر عذاب نارل کیا تو اس ایک گھرانے کو بچا لیا ۔
زیر بحث آیات میں بھی صراحت سے فرمایا گیا ہے:
ولا تزر وازرة وزر اخری
کوئی شخص دوسرے کا بوجھ دوسرے کا بوجھ اپنے کندھے پر نہیں اٹھا ئے گا ۔
اس بناء پر اگر کچھ غیر معتبر روایات میں اسلام کے کلی قانون کے خلاف کچھ نظر آئے تو اسے لازمی طور پر ایک طرف پھینک دینا چاہئے یا اس کی توجیہ کی جانا چاہئے ۔ مثلا ًایک روایت میں ہے:
مرجانے والے کو اس کے پسماندگان کی گریہ و زاری کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے ۔
ہوسکتا ہے یہاں عذاب سے عذاب الٰہی مراد نہ ہو بلکہ اس سے وہ ناراحتی اور دکھ مراد ہو کہ جو اس کی روح کو اپنے عزیزوں کی بے تابی و اضطراب سے آگاہ ہونے پر ہوتا ہے ۔
نیز اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ کہ کافروں کی اولاد اپنے ماں باپ کے ساتھ جہنم میں جائے گی، ایک اسلامی عقیدہ نہیں ہے ۔ کیونکہ اولاد کو ماں باپ کے گناہ کی سزا نہیں مل سکتی یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ غیر شرعی طور پرپیدا ہونے والی اولاد کا بھی ذاتی طور پر کوئی گناہ نہیں اور اگر وہ چاہے تو سعادت و نجات کے دروازے اس کے سامنے کھلے ہیں اگر چہ ایسی اولاد کے لیے تربیت کا مسئلہ بہت دشوار ہے ۔
۴۔ برائت کا اصول اور آیت”ما کنا معذبین“:
علمِ اصول میں”برائت “کی بحث میں زیر نظر آیت سے استدال کیا گیا ہے کیونکہ آیت کا کم از کم مفہوم یہ ہے کہ جن مسائل کا عقل ادراک نہیں کرسکتی، انبیاء بھیجے بغیر یعنی احکام اور ذمہ داریاں بیان کیے بغیر خدا کسی کو سزا نہیں دے گا ۔ یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ جن امور کے بارے میں کوئی حکم موجود نہیں ہے ان پر کوئی سزا نہ ہوگی۔ اس کو قانونِ برائت کہتے ہیں یعنی حکم بیان کیے بغیر سزا صحیح نہیں ہے ۔
باقی رہا یہ معاملہ کہ بعض نے کہا ہے کہ زیر نظر آیت میں عذاب سے مراد صرف عذابِ استیصال ہے جیسا قومِ نوح پر آیا تھا، تو اس کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں آیت مطلق ہے اور اس کے مفہوم میں ہر قسم کا عذاب اور سزا شامل ہے ۔
۱۶ وَإِذَا اٴَرَدْنَا اٴَنْ نُھْلِکَ قَرْیَةً اٴَمَرْنَا مُتْرَفِیھَا فَفَسَقُوا فِیھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاھَا تَدْمِیرًا
۱۷ وَکَمْ اٴَھْلَکْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِنْ بَعْدِ نُوحٍ وَکَفیٰ بِرَبِّکَ بِذُنُوبِ عِبَادِہِ خَبِیرًا بَصِیرًا
ترجمہ
۱۶۔ اور جب ہم کسی شہر کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے”مترفین“( نفس پرستی میں مست دولت مندوں) سے اپنے اورامر بیان کرتے ہیں ۔ پھر جب وہ مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سزا کے مستحق ہو جاتے ہیں تو ہم شدت سے ان کی سر کوبی کرتے ہیں ۔
۱۷۔ اور ایسے کتنے ہی لوگ تھے جو نوح کے بعد کی صدیوں میں رہے اور(اسی سنت کے مطابق)ہم نے انہیں ہلاک کردیا ۔ اور کافی ہے تیرا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے آگاہ اور ان کے لیے بینا ہے ۔
۱۔ وسائل الشیعہ، ج۳، ص۱۰۴-
۲۔ سفینة البحار، ج۱، ص۶۸۰-
3۔ نور الثقلین، ج۳، ص۱۴۴-
4۔ تفسیر صافی-