Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۳۔ کائنات میں نظم و حسا ب کا انسانی زندگی پر اثر:

										
																									
								

Ayat No : 9-12

: الاسراء

إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا ۹وَأَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ۱۰وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا ۱۱وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا ۱۲

Translation

بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان هایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے. اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے لئے ہم نے ایک دردناک عذاب مہیا ّکر رکھا ہے. اور انسان کبھی کبھی اپنے حق میں بھلائی کی طرح برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے کہ انسان بہت جلد باز واقع ہوا ہے. اور ہم نے رات اور دن کو اپنی نشانی قرار دیا ہے پھر ہم رات کی نشانی کو مٹا دیتے ہیں اور دن کی نشانی کو روشن کردیتے ہیں تاکہ تم اپنے پروردگار کے فضل و انعام کو طلب کرسکو اور سال اور حساب کے اعداد معلوم کرسکو اور ہم نے ہر شے کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے.

Tafseer

									تمام تر نظام کائنات کسی حساب کتاب اور نظم و شمار پر قائم ہے ۔ نظام عالم کی کوئی چیز بغیر کسی حساب کتاب کے نہیں ہے ۔ فطری امر ہے کہ انسان کہ جواس سارے نظام کا ایک جزو ہے کسی حساب کتاب کے بغیر زندگی بستر نہیں کر سکتا ۔
اسی بناء پر قرآن کی مختلف آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ چاند، سورج یا رات دن کا وجود انسان کے لیے نعمات الٰہی میں سے ہے کیونکہ یہ انسان زندگی میں نظم و حساب پیدا کرنے کا ایک عامل ہے ۔کیونکہ بے نظم زندگی فنا اور نابود کا سبب ہے ۔
ایک۔ ”ابتغاء فضل الله“۔ کہ جو عام طور پر مفید اور تعبیر کام کے معنی میں ہے ۔
دوسرا ۔سالوں کا حساب جاننا ۔
ان دونوں کا اکٹھا ذکرشاید اس بات کی دلیل ہے کہ”ابتغاء فضل الله“”نظم و حساب“ سے استفادہ کیے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
گزشتہ زمانے میں شاید یہ بات اتنی واضح نہیں تھی لیکن آج کی دنیا نو اعداد و شمار کی دنیا ہے آج تو ہر اقتصادی، سماجی، سیاسی، سائنسی اور ثقافتی ادارے میں شماریات کا شعبہ ہوتا ہے ۔ ہر کار خانے میں شعبہ ہوتا ہے ۔دور حاضر میں اس قرآن اشارے کی گہرائی کی طرف توجہ کرنا چاہئے اور یہ جاننا چاہیئے کہ قرآن نہ صرف یہ کہ قرآن نہ صرف یہ کہ زمانہ گزرنے سے پرانا نہیں ہوتا بلکہ جوں جوں وقت گرزتا ہے اس کی تازگی زیادہ نکھر کر سامنے آتی ہے ۔ (1)

 

۱۳ وَکُلَّ إِنسَانٍ اٴَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنشُورًا 
۱۴ اقْرَاٴْ کِتَابَکَ کَفیٰ بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا 
۱۵ مَنْ اھْتَدیٰ فَإِنَّمَا یَھْتَدِی لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَلَاتَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ اٴُخْریٰ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِینَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُولًا

ترجمہ
۱۳۔اور ہر شخص کے اعمال کو ہم نے اس کے گلے کار ہار بنا دیا ہے اور روز قیامت اس کے لیے ہم ایک کتاب نکالیں گے کہ جسے وہ اپنے سامنے کھلاہوا پائے گا ۔
۱۴۔ (یہ اس کا نامہ اعمال ہی ہوگا ۔ ہم اس کہیں گے)اپنی کتاب پڑھ، آج اپنا حساب لگانے کے لیے تو خود ہی کافی ہے ۔
۱۵ جو شخص بھی ہدایت پائے اس نے اپنے لیے ہدایت پائی اور جو شخص گمراہ ہو وہ اپنے ہی نقصان میں گمراہ ہوا (اس کا نقصان خود اسی کو پہنچے گا) اور کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اپنے کندھے پر نہیں اٹھائے گا ہم (لوگوں کو ان کی ذمہ دارایاں بتانے کے لیے) پیغمبر مبعوث کیے بغیر کسی (شخص یا قوم) کو عذاب نہیں دیتے ۔


1۔ اس سلسلے میں ہم نے سورہٴ یونس کی آیت ۵ کے ذیل میں بھی تفصیلی بات کی ہے، اس سلسلے میں تفسیر نمونہ کی آٹھویں جلد میں مذکورہ آیت کی تفسیر کی طرف رجوع کیجئے ۔