چند اہم نکات
إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا ۹وَأَنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ۱۰وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا ۱۱وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا ۱۲
بیشک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبان هایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے. اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے لئے ہم نے ایک دردناک عذاب مہیا ّکر رکھا ہے. اور انسان کبھی کبھی اپنے حق میں بھلائی کی طرح برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے کہ انسان بہت جلد باز واقع ہوا ہے. اور ہم نے رات اور دن کو اپنی نشانی قرار دیا ہے پھر ہم رات کی نشانی کو مٹا دیتے ہیں اور دن کی نشانی کو روشن کردیتے ہیں تاکہ تم اپنے پروردگار کے فضل و انعام کو طلب کرسکو اور سال اور حساب کے اعداد معلوم کرسکو اور ہم نے ہر شے کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے.
زیر بحث آیت میں تو انسان کو جلد باز کہا گیا ہے لیکن کسی آیات بھی ہیں جن میں انسان کو ”ظلوم‘،” جھول“، ”کفور“، سرکش، کم ظرف اور مغرور وغیرہ کہا گیا ہے ۔
ان تعبیروں سے بعضی اوقات یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ظرف یہ کہا گیا ہے اور دوسری طرف انسان کے پاک فطرت اور الٰہی روح کے حامل ہونے کا ذکر ہے ۔ ان دونوں کو کس طرح ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟
دوسری لفظوں میں اسلامی تصور کائنات کے مطابق انسان ایک عالی مرتبہ موجود ہے خلیفة اللهاور زمین میں الله کی نمائندگی کے لایق ہے ۔ انسان فرشتوں کا استاد اور ان سے برتر ہے ۔ یہ بات مذکورہ مذمت آمیز تعبیرات سے کیونکہ ہم آہنگ ہے؟
اس سوال کا جواب ایک ہی جملے میں دیا جاسکتا ہے کہ انسان کا یہ تمام تر مقام، اہمیت اور قیمت سے مشروط ہے اور وہ شرط ہے” ہادیاں الٰہی کے زیر نظر تربیت“۔ اس صورت کے علاوہ انسان خود رو گھاس پھونس کی طرح پرورش پاتا ہے اور خواہشات و شہوات میں غوطے کھاتا رہتا ہے اور اپنی عظیم صلاحتیں کھو دیتا ہے اور اس میں منفی پہلو آشکار ہو جاتے ہیں ۔
اس بنا پر۔ اگر مذکورہ شرط پوری ہوجائے تو وہ تمام مثبت صفات جو قرآن حکیم میں انسان کے بارے میں آئی ہیں وہ صورت پذیر ہو جائیں گی اور اگر یہ شرط پوری نہ ہوئی تو مذکورہ منفی صفات نمایان ہوجائیں گی۔ اسی لیے سورہ معارج کی آیہ ۱۹ تا ۲۳ میں ہے:
<إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ ھَلُوعًا، إِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوعًا، وَإِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوعًا، إِلاَّ الْمُصَلِّینَ، الَّذِینَ ھُمْ عَلیٰ صَلَاتِھِمْ دَائِمُونَ
انسان بہت کم ظرف پیدا ہوا ہے ۔ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بے تاب ہو جاتا ہے اور جب اسے کوئی اچھائی میسر آتی ہے تو بخل کرتا ہے سوائے ان نمازگزاروں کے کہ جو ہمیشہ اس طرز عمل پر باقی رہتے ہیں ۔
اس سلسلے میں مزید تفصیل تفسیر نمونہ کی آٹھویں جلد میں سورہٴ یونس کی آیت ۱۲ کے ذیل میں بیان کی جاچکی ہے ۔