معراج اور دور حاضر کا علم اور سائنس
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ۱
پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے.
گزشتہ زمانے میں بعض فلاسفہ بطلیموس کی طرح یہ نظریہ رکھتے تھے کہ نو آسمان پیاز کے چھلکے کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ہیں ۔ واقعہٴ معراج کو قبول کرنے میں ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ان کا یہی نظریہ تھا ۔ ان کے خیال میں اس طرح تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ آسمان شگافتہ ہوگئے تھے اور پھر آپس میں مل گئے تھے ۔(1)
لیکن بطلیموسی نظریہ ختم ہوگیا تو آسمانوں کے شگافتہ ہونے کا مسئلہ ہی ختم ہوگیا البتہ علم ہیئت میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے معراج کے سلسلے میں نئے سوالات ابھرے ہیں مثلاً:
(۱) ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مدار اور مرکز ثقل سے نکلنے کے لیے کم از کم چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔
(۲)دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔
(۳) تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصے میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے کہ جس حصے پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑ رہی ہے اور اس حصے میں مار ڈالنے والی سردی ہے کہ جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ۔
(۴)اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطر ناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجود ہیں مثلاً کاسمک ریز Cosmic Rays الٹراوائلٹ ریز Ultra Violet Rays اور ایکس ریز X-Rays ۔ یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم Organism کے لیے نقصان وہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں ۔ (زمین پر رہنے والوں کے لیے زمین کے اوپر موجود فضا کی وجہ سے ان کی تابش ختم ہوجاتی ہے) ۔
(۵) ایک اور مشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے اگر چہ تدریجاً بے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلاص جا پہنچیں تو بے وزنی سے نمٹنا بہت ہی مشکل یا ناممکن ہے ۔
(۶) آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دور حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی شخص آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہو۔
ان امور کے جواب میں ان نکات کس طرف توجہ ضروری ہے:
(۱) ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔
(۲) اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی کا پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے صورت پذیر ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے، زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ معجزہ عقلاً محال نہیں ہونا چاہئے اور یہ معجزہ بھی عقلاً ممکن ہے ۔ باقی معاملات اللہ کی قدرت سے حل ہوجاتے ہیں ۔
جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ۔ یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟
ہمیں یقین ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس سفر کے لیے انتہائی تیز رفتار سواری دی تھی اور اس سفر میں درپیش خطرات سے محفوظ رہنے کے لیے انہیں اپنی مدد کا لباس پہنایا تھا ۔ ہاں یہ سواری کس قسم کی تھی اور اس کا نام کیا تھا ۔براق؟یا کوئی اور---؟ یہ مسئلہ قدرت کا راز ہے،ہمیں اس کا علم نہیں ۔
ان تمام چیزوں سے مقطع نظر تیز ترین رفتار کے بارے میں مذکورہ نظر یہ آج کے سائنسدانوں کے درمیان متزلزل ہوچکا ہے اگر چہ آئن سٹائن اپنے مشہور نظریے پر پختہ یقین رکھتا ہے ۔
آج کے سائنسدان کہتے ہیں کہ امواج جاذبہ Rays of Attraction زمانے کی احتیاج کے بغیر آنِ واحد میں دنیا کی ایک طرف سے دوسری طرف منتقل ہوجاتی ہیں اور اپنا اثر چھوڑتی ہیں یہاں تک کہ یہ احتمال بھی ہے کہ عالم کے پھیلاؤ سے مربوط حرکات میں ایسے منظومے موجود ہیں کہ جو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے مرکز جہان سے دور ہوجاتے ہیں (ہم جانتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے اور یتارے اور نظام ہائے شمسی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں)(غور کیجئے گا) ۔
مختصر یہ کہ اس سفر کے لیے جو بھی مشکلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی عقلی طور پر اس راہ میں حائل نہیں ہے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں کہ واقعہ معراج کو محال عقلی سمجھا جائے ۔اس راستے میں در پیش مسائل کو حل کرنے کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ موجود ہوں تو ایسا ہوسکتا ہے ۔
بہرحال واقعہ معراج نہ تو عقلی دلائل کے حوالے سے نا ممکن ہے اور نہ دور حاضر کے سائنسی معیاروں کے لحاظ سے، البتہ اس کے غیر معمولی اور معجزہ ہونے کو سب قبول کرتے ہیں لہٰذا جب قطعی اور یقینی نقلی دلیل سے ثابت ہوجائے تو اسے قبول کرلینا چاہیٴے ۔(2)
واقعہ معراج کے سلسلے میں کچھ اور پہلو بھی ہیں جن پر انشاء اللہ سورہ نجم کی تفسیر میں گفتگو ہوگی ۔
وَآتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاہُ ھُدًی لِبَنِی إِسْرَائِیلَ اٴَلاَّ تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِی وَکِیلًا
۳ ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّہُ کَانَ عَبْدًا شَکُورًا
۴ وَقَضَیْنَا إِلیٰ بَنِی إسْرائِیلَ فِی الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ
فِی الْاٴَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیرًا
۵ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ اٴُولَاھُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَنَا اٴُولِی بَاٴْسٍ شَدِیدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا
۶ ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمْ الْکَرَّةَ عَلَیْھِمْ وَاٴَمْدَدْنَاکُمْ بِاٴَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَجَعَلْنَاکُمْ اٴَکْثَرَ نَفِیرًا
۷ إِنْ اٴَحْسَنتُمْ اٴَحْسَنتُمْ لِاٴَنفُسِکُمْ وَإِنْ اٴَسَاٴْتُمْ فَلَھَا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِیَسُوئُوا وُجُوھَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوہُ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِیُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیرًا
۸ عَسیٰ رَبُّکُمْ اٴَنْ یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ حَصِیرًا
ترجمہ
۲۔ ہم نے موسیٰ کو(آسمانی )کتاب عطا کی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ قرار دیا اور ہم نے کہا کہ ہمارے غیر کو سہارا نہ بناؤ۔
۳۔ اے ان لوگوں کی اولاد کہ جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر)سوار کیا تھا!وہ ایک شکر گزار بندہ تھا ۔
۴۔ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب (تورات) میں بتادیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد برپا کرو گے اور بڑی سرکشی کرو گے ۔
۵۔ جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع آپا تو ہم تمہارے اوپر نہایت زور آور لوگ بھیجیں گے (تاکہ وہ تم سے سختی سے نمٹیں یہاں تک کہ مجرموں کو پکڑنے کے لیے) گھروں کی تلاشی لیں گے اور یہ وعدہ قطعی ہے ۔
۶۔ اس کے بعد ہم تمہیں ان پر غلبہ دیں گے اور تمہارا مال اور اولاد بڑھادیں گے اور تمہاری تعداد (دشمن سے)زیادہ کردیں گے ۔
۷۔ اگر نیکی کرو گے تو اپنے آپ سے بھلائی کرو گے اور اگر بدی کرو گے تو بھی خود سے کرو گے اور جب دوسرے وعدے کا وقت آپہنچا (تو دشمن تمہارا یہ حال کرے گا کہ) تمہارے چہرے غمزدہ ہوجائیں گے اور وہ مسجد (اقصیٰ)میں یوںداخل ہوں گے جیسے پہلے دشمن داخل ہوئے تھے اور جو چیز بھی ان کے ہاتھ پڑے گی اسے در ہم بر ہم کردیں گے ۔
۸۔ ہوسکتا ہے تمہارا رب تم پر رحم کرے ۔ جب تم پلٹ آوں گے تو ہم بھی پلٹ آئیں گے اورہم نے جہنم کو کافروں کے لیے سخت قید خانہ بنارکھا ہے ۔
1۔ بعض قدیم فلاسفہ کا نظریہ تھا کہ آسمانوں میں ایسا ہوتا ممکن نہیں ہے ۔ اصطلاح میں وہ کہتے تھے کہ افلاک میں ”خرق“ (پھٹنا) اور ”التیام“(ملنا) ممکن نہیں ۔
2۔ مزید وضاحت کے لیے کتاب ”ہمہ می خواہند بدانند“ کی طرف رجوع فرمائیں ۔ اس میں ہم نے معراج، شق القمر اور قطبین میں عبادت کے سلسلے میں بحث کی ہے ۔