معراجِ رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ۱
پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے.
اس سورت کی پہلی آیت میں ”اسراء“کا ذکر ہے ۔راتوں رات جو رسول اللهنے مسجد الحرام سے مسجدالاقصیٰ(بیت المقدس)کا سفر کیا تھا اس میں اس کا ذکر ہے ۔یہ سفر معراج کا مقدمہ بنا ۔یہ سفر جو رات کے بہت کم وقت میں مکمل ہوگیا کم از کم اس زمانے کے حالات،راستوں اور معمولات کے لحاظ سے کسی طرح بھی ممکن نہ تھا ۔یہ بالکل اعجاز آمیز اور غیر معمولی تھا ۔
پہلے فرمایا گیا ہے :منزہ ہے وہ خدا کہ جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدالحرام سے مسجدالاقصیٰ کی طرف لے یے گیا (سُبْحَانَ الَّذِی اٴَسْریٰ بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصَی) ۔
رات کی یہ غیر معمولی سیر اس لیے تھی تاکہ ہم اسے اپنی عظمت کی نشانیاں دکھائیں (لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا ) ۔
آخر آیت میں فرمایا گیا ہے:اللهسننے والا اور دیکھنے والا ہے(إِنَّہ ھُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ ) ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اللهنے اپنے پیغمبر کو اس افتخار کے لیے چنا ہے تو یہ بلاوجہ نہیں ہے کیونکہ رسول کی گفتار اور ان کا کردار اس قابل تھا کہ یہ لباس ان کے بدن کے لیے بالکل زیبا تھا ۔
اللهنے اپنے رسول کی گفتار سنی،اس کا کردار دیکھا اور اس مقام کے لیے اس کی لیاقت مان لی ۔
اس جملے کے بارے میں بعض مفسریں نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس اعجاز کے منکریں کو تہدید کی جائے کہ اللهان کی باتیں سنتاہے،ای کے اعمال دیکھنا ہے اور ان کی سازش سے آگاہ ہے ۔
یہ آیت نہایت مختصر اور جچے تلے الفاظ پر مشتمل ہے تا ہم اس رات کے معجزہ نما سفر کے بہت سے پہلو اس آیت سے واضح ہوجاتے ہیں:
(۱) لفظ ”اسریٰ“ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سفررات کے وقت ہوا کیونکہ ”اسراء“عربی زبان میں رات کے سفر کے معنی ہے جبکہ لفظ”سیر“دن کے سفر کے لیے بولا جاتا ہے ۔
(۲)لفظ ”لیلا“ ایک تو ”اسرا“ کے مفہوم کی تاکید ہے اور دوسرے اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ یہ سارے کا سارا سفر ایک ہی رات میں ہوا اور اہم بات بھی یہی ہے کہ مسجدالحرام اور مسجد الاقصیٰ کے در میان ایک سوفرسخ سے زیادہ کا فاصلہ کئی دنوں بلکہ کئی ہفتوں میں طے کیا جاتا تھا جبکہ شب اسراء تھوڑے سے وقت میں یہ سفر مکمل ہوگیا ۔
(۳)لفظ ”عبد“ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ افتخار و اکرام رسول اللهکے مقام عبودیت کی وجہ سے تھا کیونکہ انسان کے لیے سب سے بلند منزل یہی ہے کہ وہ اللهکا سچا اور صحیح بندہ ہوجائے ۔اس کی بارگاہ کے سوا کہیں تھا نہ جھکائے،اس کے علاوہ کسی کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے،جو بھی کام کرے فقط خدا کے لیے ہو اور جو بھی قدم اٹھائے اسی کی رضا مطلوب ہو۔
(۴)”عبد“ کی تعبیر یہ واضع کرتی ہے کہ سفر عالم بیداری میں تھا اور یہ جسمانی سیر تھی نہ کہ روحانی کیونکہ سیر روحانی کا کوئی معقول معنی خواب یا خواب کی مانند حالت کے سوا نہیں ہے لیکن لفظ”عبد“ نشاندہی کرتا ہے کہ جسم و روح پیغمبر اس سفر میں شریک تھے ۔یہ اعجاز جن میں نہیں آتا انہوں نے جو زیادہ بات کی ہے یہ ہے کہ انہوں نے آیت کی توجیہ کے نام پر اسے روحانی کہہ دیا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں فلاں شخص کو فلاں جگہ سے لے گیا تو اس کا یہ مفہوم نہیں ہوگا کہ عالم خواب میں یا عالم خیال میں یا فکری طور پر لے گیا ۔
(۵)اس سفر کا آغاز مکہ کی مسجدالحرام سے وہاں سے بیت المقدس میں موجود مسجدالاقصیٰ پہنچے(اور یہ سفر معراج آسمانی کا مقدمہ تھا کہ جس کے بارے میں ہم بعد میں دلایل پیش کریں گے) ۔
البتہ تمام مکہ کو بھی چونکہ ااحترام کی وجہ سے مسجدالحرام کہا جاتا ہے لہذا مفسرین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ رسول اللهکا یہ سفر خانہ کعبہ کے قریب سے شروع ہواتھا یا کسی عزیز رشتہ دار کے گھر سے ۔لیکن اس میں شک نہیں کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ سیر خانہ کعبہ سے شروع ہوئی ۔
(۶)اس سیر کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللهعظمت الٰہی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں ۔آسمانوں کی سیر بھی اسی مقصد سے تھی کہ پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ کی باعظمت روح ان آیات بینات ما مشاہدہ کرکے اور بھی عظمت و بزرگی پالے اور انسانوں کی ہدایت کے لیے آپ خوب تیار ہوجائیں ۔یہ سفر معراج بعض کوتاہ فکر لوگوں کے خیال کے بر عکس اس لیے نہ تھا کہ آپ خدا کو دیکھیں ۔ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ خدا آسمانوں میں رہتا ہے ۔
بہر حال اگر چہ رسول الله عظمت الٰہی کو پیچانتے تھے اور اس کی خلقت کی عظمت سے بھی آگاہ تھے لیکن بقولے:ولی
شنیدن کی بود مانند دیدن
سورہ نجم کی آیات میں بھی اس سفر کے آخری حصے یعنی معراج آسمانی کی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔
ارشاد ہوتا ہے:
لَقَد رَاٰی مِن اٰیَاتِ رَبِّہِ الکُبرٰی
اس سفر میں اس نے اپنے رب کی عظیم آیات دیکھیں ۔
(۷)”بارکناحولہ “یہ مطلب واضح کرتا ہے کہ مسجد الاقصیٰ علاوہ اس کے کہ خود مقدس ہے اس کے اطراف کی سرزمین بھی مبارک اور با برکت ہے ۔یہ اس کی ظاہری برکات کی طرف اشارہ ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ سر سبز و شاداب سرزمین ہے ۔درخت اس زمین پر سایہ فگن ہیں ۔پانی وہاں جاری رہتا ہے اور یہ ایک آباد علاقہ ہے ۔
(۸)جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں’ ’اِنَّہ ھُوَالسَّمِیعُ الْبَصِیر“کا جملہ اس طرف اشارہ ہے کہ رسولالله کو اس نعمت کی عطا بلا وجہ نہ بلکہ اس اہلبیت و لیاقت کے باعث تھی کہ جو آپ کی گفتار و کردار سے ہویدا تھی اور اللهہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔
(۹)ضمنی طور پر لفظ ”سبحان “اس بات کی دلیل ہے اور رسول الله کا یہ سفر بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ اللهہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔
(۱۰)”من اٰیاتنا“میں لفظ”من“نشاندہی کرتا ہے کہ آیات عظمت الٰہی اس قدر زیادہ ہیں کہ اپنی تمام تر عظمت کے با وجود رسول الله (ص) نے اس با عظمت سفر میں صرف بعض کا ہی مشاہدہ کیا ۔