شانِ نزول
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۱۰۶ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ۱۰۷أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ ۱۰۸لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ۱۰۹ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ ۱۱۰يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ۱۱۱
جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے .... علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ....اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے. یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے زندگانی دنیا کو آخرت پر مقدم کیا ہے اور اللہ ظالم قوموں کو ہرگز ہدایت نہیں دیتا ہے. یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور آنکھ کان پر کفر کی چھاپ لگا دی گئی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جوحقیقتا حقائق سے غافل ہیں. اور یقینا یہی لوگ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہیں. اس کے بعد تمہارا پروردگار ان لوگوں کے لئے جنہوں نے فتنوں میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی ہے اور پھر جہاد بھی کیا ہے اور صبر سے بھی کام لیا ہے یقینا تمہارا پروردگار بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے. قیامت کا دن وہ دن ہوگا جب ہر انسان اپنے نفس کی طرف سے دفاع کرنے کے لئے حاضر ہوگا اور نفس کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا.
شانِ نزول:
بعض مفسرین نے پہلی آیت کی شان ِ نزول کے بارے میں نقل کیا ہے کہ آیت مسلمانوں کے ایک خاص گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ مشرکین کے چنگل میں گرفتار ہو گئے تھے کفار نے انھیں مجبور کیا کہ اسلام کے خلاف کفر و شرک کا اظہار کریں۔ یہ افراد عمار، ان کے والد یاسر، ان کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال اور خباب تھے۔ عمار کے ماں باپ نے اس واقعے میں بڑی استقامت دکھائی اور ڈٹے رہے۔ انھیں قتل کر دیا گیا۔ عمار نوجوان تھے مشرکین جو چاہتے تھے انھوں نے کہہ دیا۔ یہ خبر مسلمانوں تک پہنچی تو بعض نے غائبانہ طور پر عمار کی مذمت کی اور کہا کہ عمار اسلام سے نکل گیا ہے اور کافر ہوگیا ہے۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا:
ان عمارا فلاء ایماناً من قرنہ الی قدمہ و اختلط الایمان بلحمہ و دمہ۔
ایسا نہیں ہے (میں عمار کو خوب جانتا ہوں) عمار سرتاپا ایمان سے معمور ہے ایمان اس کے گوشت اور خون میں ملا ہوا ہے (وہ ہرگز ایمان کو ترک نہیں کرے گا اور مشرکین سے نہیں ملے گا)۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ عمار رسولِ خدا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟
انھوں نے عرض کی بہت بُرا ہوا۔ انھوں نے اس وقت تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا جب تک میں نے آپ کے بارے میں جسارت نہیں کی اور ان کے بتوں کے بارے میں کلمہ خیر نہیں کہا:
رسول اللہ اپنے مبارک ہاتھوں سے عمار کی آنکھوں سے آنسو پونچھتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: اگر دوبارہ تم ان کے ہاتھوں میں آجاو تو جو کچھ وہ کہیں کہہ دو (اور اپنی جان کو مشکل سے بچاو) اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
مَنْ كَفَرَ بِاللّـٰهِ مِنْ بَعْدِ اِيْمَانِهٓ ٖ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آیت نے مسائل کو واضح کر دیا۔۱؎
-----------------------------------
۱؎ تفسیر مجمع البیان۔
-----------------------------------