چند اہم نکات
وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ ۹۱وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَنْ تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ۹۲وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِنْ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۹۳وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدْتُمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۹۴
اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور اپنی قسموں کو ان کے استحکام کے بعد ہرگز مت توڑو جب کہ تم اللہ کو کفیل اور نگراں بناچکے ہو کہ یقینا اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ہے. اور خبردار اس عورت کے مانند نہ ہوجاؤ جس نے اپنے دھاگہ کو مضبوط کاتنے کے بعد پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا-کیا تم اپنے معاہدے کو اس چالاکی کا ذریعہ بناتے ہو کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے-اللہ تمہیں ان ہی باتوں کے ذریعے آزما رہا ہے اور یقینا روزِ قیامت اس امر کی وضاحت کردے گا جس میںتم آپس میں اختلاف کررہے تھے. اور اگر پروردگار چاہتا تو جبراتم سب کو ایک قوم بنادیتا لیکن وہ اختیار دے کر جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے منزل ہدایت تک پہنچادیتاہے اور تم سے یقینا ان اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا جوتم دنیا میں انجام دے رہے تھے. اور خبردار اپنی قسموں کو فساد کا ذریعہ نہ بناؤ کہ نو مسلم افراد کے قدم ثابت ہونے کے بعد پھر اکھڑ جائیں اور تمہیں راہ هخدا سے روکنے کی پاداش میں بڑے عذاب کا مزہ چکھنا پڑے اور تمہارے لئے عذابِ عظیم ہوجائے.
چند اہم نکات:
۱۔ عہدوپیمان کے احترام کا فلسفہ:۔ ہم جانتے ہیں کسی معاشرے کا اہم ترین سمایہ لوگوں کا باہمی اعتماد ہے۔ اصولی طور پر جو چیز معاشرے کو بکھرے ہوئی اکائیوں سے نکال کر ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں منسلک اور وابستہ کر دیتی ہے وہ یہ ہی باہمی اعتماد ہی ہے یہ اعتمادی ہے جس کی بنیاد پر انسانوں کے کاموں میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اور وہ آپس میں مل جل کر کام کرتے ہیں اور رہتے سہتے ہیں۔ عہدوپیمان اور قسمیں اس باہمی اعتماد ہی کے لیے تاکید کا کام دیتی ہیں۔
اگر عہدوپیمان ٹوٹتے رہیں تو پھر معاشرے میں باہمی اعتماد کے عظیم رشتے بھی ٹوٹ جاتے ہیں اور معاشرہ ظاہری صورت میں ایک ہونے کے باوجود بکھرا ہوا اور پراگندہ ہوتا ہے اور وہ ایسی اکائیوں میں بدل جاتا ہے جن میں کوئی دم خم نہیں ہوتا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ قرآنی آیات اور اسلامی احادیث میں ایفائے عہد اور قسموں کو پورا کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہےاور بد عہدی اور قسموں کو توڑنے کو گناہِ کبیر قرار دیا گیا ہے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کے نام اپنے فرمان میں اسلام اور زمانہ جاہلیت میں اس امر کی بہت زیادہ اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے ایک نہایت اہم اور عمومی مسئلہ شمار کرتے ہوئے اس پر بہت تاکید کی ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ مشرکین تک اپنے عہد اور معاہدوں کی پابند کیا کرتے تھے کیونکہ انھیں پیمان شکنی کے المناک انجام کا علم تھا۔۱؎
اسلام کے جنگلی احکام میں ہے کہ ایک عام سپاہی بھی دشمن فوج کے ایک فرد یا چند افراد کو امان دے دے تو تمام مسلمانوں کے لیے اس امان کا احترام لازمی ہے۔
مؤرخین اور مفسرین کہتے ہیں کہ صدر اسلام میں جو بہت سے گروہوں نے اسلام جیسا عظیم الٰہی دین قبول کیا اس کا ایک سبب مسلمانوں کا اپنے عہد و پیمان کا پابند ہونا اور اپنی قسموں کو پورا کرنا تھا۔
یہ معاملہ اس قدر اہم ہے کہ حضرت سلمان فارسی سے ایک روایت ان الفاظ میں مروی ہے:-
تھلک ھذہ الامۃ بنقض ھوا ثیقھا
اس امت کی ہلاکت پیمان شکنیوں کی وجہ سے ہوگی۔۲؎
یعنی جیسے ایفائے عہد عظمت و شوکت اور ترقی کا سبب ہے اسی طرح پیمان شکنی، درماندگی، تنزلی اور نابودی کا سبب ہے۔
تاریخ اسلام میں ہے کہ جب خلیفہ ثانی کے دور میں مسلمانوں نے ساسانیوں کو شکست دی اور ایران کے لشکر کا عظیم بادشاہ ہر مزان گرفتار ہوا تو اسے حضرت عمر کے سامنے پیش کیا گیا۔ خلیفہ نے اس سے کہا: تم نے بارہا ہم سے عہدوپیمان کیا اور پھر پیمان شکنی کی، اس کی کیا وجہ تھی۔
ہرمزان کہنے لگا: مجھے خوف ہے کہ اس کی وجہ بیان کرنے سے پہلے تم مجھے قتل نہ کر دو۔
خلیفہ نے کہا: ڈرو نہیں۔
ہرمزان نے پانی مانگا، فوراً ایک عام سے بے قیمت برتن میں پانی بھر کے اسے پیش کیا گیا۔
ہرمزان نے کہا: میں پیاس سے مر بھی جاؤں تو اس برتن میں پانی نہیں پیوںگا۔
خلیفہ نے کہا: ایسے برتن میں پانی لے آؤ جو اس کے لیے قابلِ قبول ہو۔
ایسا برتن لایا گیا پانی بھر کر اسے دیا گیا وہ ادھر اُدھر دیکھتا تھا اور پانی نہیں پیتا تھا اور کہتا تھا: مجھے ڈر ہے کہ میں پانی پینے لگوں گا تو مجھے قتل کر دیا جائے گا۔
خلیفہ نے کہا: ڈرو نہیں، میں تجھے اطمینان دلاتا ہوں کہ جب تک تو پانی پی نہ لے تھے کچھ نہیں کیا جائے گا۔
ہر مزان نے اچانک پانی کا برتن اوندھا کر دیا۔ پانی زمین پر گر گیا۔ خلیفہ نے سمجھا پانی اس کے ہاتھوں سے بے اختیار
----------------------------------------------------
۱؎ نہج البلاغہ خطوط علی (ع) نامہ ۵۳۔
۲؎ مجمع البیان، زیر بحث آیت کے ذیل ہیں۔
----------------------------------------------------
گر گیا ہے لہذا کہا: اس کے لیے اور پانی لے آؤ اور اسے پیاسا قتل نہ کرو۔
ہرمزان نے کہا مجھے پانی نہیں چاہیے میرا مقصد تو یہ تھا کہ تجھ سے امان لے لوں۔
خلیفہ نے کہا میں تجھے ہر صورت میں قتل کروں گا۔
ہرمزان کہنے لگا: تو مجھے امان دے چکا ہے اور اطمینان دلا چکا ہے۔
خلیفہ نے کہا: تو جھوٹ بولتا ہے، میں نے تجھے امان نہیں دی۔
انس ۱؎ وہاں موجود تھے کہنے لگے: ہر مزان سچ کہتا ہے، آپ نے اسے امان دی ہے کیا آپ نے نہیں کہا کہ جب تک تو پانی نہ پی لے تجھے کچھ نہیں کہا جائے گا۔
خلیفہ بات کہہ کر پھنس گئے، ہرمزان سے کہنے لگے: تو نے مجھے دھوکا دیا ہے لیکن میں نے اس لیے دھوکا کھایا کہ تو اسلام قبول کرلے۔
ہرمزان نے یہ منظر دیکھا (اور مسلمانوں کے عہدوپیمان کی پابندی دیکھی تو اس کے سینے میں نورِ ایمان چمک اُٹھا) تو مسلمان ہوگیا۔۲؎
۲۔ پیمان شکنی کے لیے بہانے:- پیمان شنکنی اتنی بُری چیز ہے کہ کوئی شخض پسند نہیں کرتا کہ اپنے اوپر اور اس کا الزام لے۔ یہی وجہ ہے کہ عہد شکنی کرنے والے عُذر تلاش کرتے ہیں چاہے وہ عُذر کتنا ہی بے بنیاد کیوں نہ ہو۔ اس کی مثال ہم نے زیر بحث آیات میں بھی دیکھی ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض مسلمان خدا اور رسول ﷺ سے باندھے ہوئے اپنے عہد میں تزلزل کے لیے دشمنوں کی کثرت کا بہانا کرتے تھے حالانکہ کثرت کامیابی کی دلیل نہیں کیونکہ ایسا بہت ہوا ہے کہ ایک با ایمان اور عزم صمیم کا حامل اقلیت کسی بڑی بے ایمان اکثریت پر کامیاب ہوگئی۔ اسی طرح دشمنوں کی کثرت اس بات کے لیے کب جواز بن سکتی ہے کہ دوستوں سے عہد شکنی کی جائے کیونکہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو ایسی عہد شکنی دراصل ایک قسم کا شرک اور خدا اسے بیگانگی ہے۔
آیت میں جو مثال پیش کی گئی ہے۔ ہمارے زمانے میں اس بات نے ایک نئی صورت اختیار کی ہے بعض ایسی مسلمان حکومتیں ہیں کہ جو بظاہر چھوٹی ہیں بڑی استعماری طاقتوں کے خوف سے مومنین سے باندھے ہوئے اپنے پیمان پورے نہیں کرتیں ان کے حکمران ناچیز اور کمزور انسانی طاقت کو خدا کی لامتناہی قدرت پر مقدم سمجھتے ہیں۔ غیر خدا پر تکیہ کرتے ہیں اور غیر خدا سے ڈرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے عہد و پیمان بھی اسی انحصار اور خوف کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ یہ سارے کیفیت شرک و بت پرستی کی پیداوار ہے۔
-------------------
-------------------
-------------------------------------------------
۱؎ ایک مشہور صحابی۔
۲؎ تاریخ کامل جلد ۲ ص ۵۴۹۔
-------------------------------------------------