Tafseer e Namoona

Topic

											

									  قیامت کے بارے میں کافروں کا تعجب

										
																									
								

Ayat No : 5-6

: الرعد

وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ۵وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلَاتُ ۗ وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَىٰ ظُلْمِهِمْ ۖ وَإِنَّ رَبَّكَ لَشَدِيدُ الْعِقَابِ ۶

Translation

اور اگر تمہیں کسی بات پر تعّجب ہے تو تّعجب کی بات ان لوگوں کا یہ قول ہے کہ کیا ہم خاک ہوجانے کے بعد بھی نئے سرے سے دوبارہ پیدا کئے جائیں گے .یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا ہے اور ان ہی کی گردنوں میں طوق ڈالے جائیں گے اور یہی اہل هجہّنم ہیں اور اسی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں. اور اے رسول یہ لوگ آپ سے بھلائی سے پہلے ہی برائی (عذاب)چاہتے ہیں جب کہ ان کے پہلے بہت سی عذاب کی نظریں گزر چکی ہیں اور آپ کا پروردگار لوگوں کے لئے ان کے ظلم پر بخشنے والا بھی ہے اور بہت سخت عذاب کرنے والا بھی ہے.

Tafseer

									عظمت الہٰی کی نشانیوں کے بارے میں جو آیات گزری ہیں ان کے بعد زیر بحث پہلی آیت میں مسئلہ معاد پیش کیا گیا ہے او ر مسئلہ مبداء و معاد میں جو خاص ربط اور تعلق ہے اس کی بنیاد پر اس بحثکو پختگی دی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے اگر تم کسی چیز پر تعجب کرنا چاہتے ہو تو ان کی اس بات پر تعجب کرو کہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے تو ہمیں نئی خلقت دی جائے گی (وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُھُمْ اٴَئِذَا کُنَّا تُرَابًا اٴَئِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِید)۔۱
یہ وہی تعجب ہے جو تمام جاہل قوموں کو مسئلہ معاد کے بارے میں تھا ۔ وہ موت کے بعد حیات ِ نواور خلقت ِ جدید کو محال سمجھتے تھے حالانکہ گزشتہ آیات میں اور دیگر قرآنی آیات میں اس مسئلے کا اچھی طرح سے جواب دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ آغاز ِ خلقت اور تجدید ِ خلقت میں کیا فرق ہے وہ ذات جو آغاز ِ خلقت میں انہیں پیدا کرنے پر قادرتھی وہ اس پر بھی قادر ہے کہ ان کے بدن کو حیات نو عطا کرے ۔ گویا یہ اپنی خلقت کی ابتدا کو بھول چکے ہیں تبھی تو اس کی تجدید کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ 
پہلے کہتا ہے : یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پر ور دگار کے کافر ہو گئے ہیں ( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِرَبِّھِمْ)۔کیونکہ اگریہ لوگ خدا کو اور اس کی ربوبیت کو قبول کرتے توپھر معاد اور تجدید حیاتِ انسانی کے بارے میں شک نہ کرتے لہٰذا مسئلہ معاد میں ان کی خرابی مسئلہ توحید و ربوبیت ِ الہٰی کے بارے میں ان کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔
دوسرا یہ کہ کفر اور بے ایمانی اختیار کرنے کی وجہ سے اور توحید کے پر چم آزادی کے سائے سے نکل جانے کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو طوق و زنجیر میں گرفتار کر لیا ہے ۔ انہوں نے بت پرستی ، ہوسپرستی ، مادہ پرستی اور جہالت و خرافات کے طوق اپنے ہاتھوں اپنی گردن میں ڈالے ہیں ” اور ان کی گردن میں یہ طوق ہیں “ ( وَاٴُوْلَئِکَ الْاٴَغْلَالُ فِی اٴَعْنَاقِھمْ)۔
” اور اس کیفیت اور کردار کی وجہ سے ایسے لوگ یقینا اہل دوزخ ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے“ اور ان کے لئے اس کے سوا کوئی نتیجہ اور توقع نہیں ہے (وَاٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ النَّارِھُمْ فِیھَا خَالِدُونَ )۔
بعد والی آیت میں مشرکین کی ایک اور غیر منطقی بات پیش کی گئی ہے ۔ فرمایا : بجائے اس کے کہ وہ تیرے ذریعے خدا سے رحمت کا تقاضا کرتے عذاب ، کیفر کردار اور سزا میں تعجیل کا تقاضا کرتے ہیں ( وَیَسْتَعْجِلُونَکَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ)۔
یہ قوم اس قدر ہٹ دھرم اور جاہل کیوں ہے ۔ لوگ یہ کیوں نہیں کہتے کہ اگر تو سچ کہتا تو ہم اس طرح یا س رحمت ِ خدا نازل کر ، الٹا کہتے ہیں کہ اگر تیری بات سچی ہے تو ہم پر عذاب ِ خدا نازل کر۔ 
کیا ان کا خیا ل ہے کہ خدا کی سزا اور عذاب کی بات غلط ہے ” حالانکہ گزشتہ زمانوں میں سر کش امتوں پر عذاب نازل ہو ئے “ جن کی خبریں صفحاتِ تاریخ پر اور زمین کے دل پر ثبت ہیں ( وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِھمْ الْمَثُلَاتُ )۔ 2
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : لوگوں کی برائیوں ، قباحتوں اور ظلم و ستم کے مقابلے میں خدا صاحبِ مغفرت ہے اور شدید العقاب بھی ہے (وَإِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ لِلنَّاسِ عَلَی ظُلْمِھمْ وَإِنَّ رَبَّکَ لَشَدِیدُ الْعِقَابِ)۔
اس کی شدت عقاب و سزا اس کی رحمت ِ عام کے لئے ہر گز رکاوٹ نہیں جیسا کہ اس کی رحمت ِ عام شد ِت عقاب و سزا کا وٹ نہیں ہے ۔ 
یہ اشتباہ نہیں ہو نا چاہئیے کہ وہ ظالموں کو موقع دیتا ہے کہ جو کچھ وہ چاہیں کریں کیونکہ ایسے مواقع پرتو وہ شدید العقاب ہے ۔ پر وردگار کی یہ دو صفات یعنی ”ذو مغفرة“ اور ” شدید العقاب“ کے آثار کا تعلق خود انسان کے وجود سے ہے ۔

 

۱۔”ان تعجب فعجب قولھم“ ۔ اس جملے کا در حقیقت یہ معنی ہے کہ اگر تو چاہتا ہے کہ کسی چیز کے بارے میں تعجب کرے تو ا ن کی بات پر تعجب کرو کیونکہ یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے اور ” فعجب قولھم“ در اصل جملہ شرطیہ کی جزا ہے ۔
2۔”مثلات“مثلة“کی جمع ہے ۔ یہ بلاوٴںاور سزا وٴں کے معنی میں ہے جو گزشتہ امتوں پر اس طرح سے نازل ہوئیں کہ ضرب المثل ہوگئیں۔