چند اہم نکات
يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ۸۷فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ ۸۸قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ ۸۹قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنْتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ۹۰قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ ۹۱قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ۹۲اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ ۹۳
میرے فرزندو جاؤ یوسف اور ان کے بھائی کو خوب تلاش کرو اور رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا کہ اس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتا ہے. اب جو وہ لوگ دوبارہ یوسف کے پاس گئے تو کہنے لگے کہ اے عزیز ہم کو اور ہمارے گھر والوں کو بڑی تکلیف ہے اور ہم ایک حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں آپ ہمیں پورا پورا غلہ دے دیں اور ہم پر احسان کریں کہ خدا کا»خیر کرنے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے. اس نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے جب کہ تم بالکل جاہل تھے. ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں?انہوں نے کہا کہ بیشک میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے -اللہ نے ہمارے اوپر احسان کیا ہے اور جو کوئی بھی تقوٰی اور صبر اختیار کرتاہے اللہ نیک عمل کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے. ان لوگوں نے کہا کہ خدا کی قسم خدا نے آپ کو فضیلت اور امتیاز عطا کیا ہے اور ہم سب خطاکار تھے. یوسف نے کہا کہ آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیںہے .خدا تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے. جاؤ میری قمیض لے کر جاؤ اور بابا کے چہرہ پر ڈال دو کہ ان کی بصارت پلٹ آئے گی اور اس مرتبہ اپنے تمام گھر والوں کو ساتھ لے کر آنا.
۱۔ یوسف (علیه السلام) کی قمیص کون لے کر گیا ؟ چند ایک روایات میں آیا ہے کہ حضرت یوسف (علیه السلام) نے کہا :
میرا شفا بخش کرتہ باپ کے پاس وہی لے کر جائے جو خون آلودہ کرتہ لے کر گیا تھا تاکہ جیسے اس نے باپ کو تکلیف پہنچائی اور پریشان کیا تھا اب کے اسے خوش و خرم کرے ۔
لہٰذا یہ کام ” یہودا“ کے سپرد ہواکیونکہ اس نے بتا تھا کہ وہ میں ہو جو خون آلودہ کرتہ لے کرباپ کے پاس گیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ آپ کے بیٹے کو بھیڑیا کھا گیا ہے ۔
ااس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ یوسف (علیه السلام) اس قدر مشکلات او رمصائب میں گرفتار رہے لیکن اخلاقی مسائل کی باریکی سے غافل نہیں رہتے تھے ۔ 6
۲۔ یوسف (علیه السلام) کی عظمت : بعض دیگر روایا ت میں آیا ہے کہ اس ماجرے کے بعد حضرت یوسف (علیه السلام) کے بھائی ہمیشہ شرمسار رہتے تھے ۔ انہوں نے کسی کو یوسف (علیه السلام) کے پاس بھیجا او رکہلایا کہ آپ ہر صبح و شام ہمیں دستر خوا ن پر بٹھا تے ہیں اور آپ کا چہرہ دیکھ کر ہمیں شرم و خجالت محسوس ہو تی ہے کیونکہ ہم نے آپ کے ساتھ اس قدر جسارتیں کی ہیں ۔
اس بناء پر کہ انہیں نہ صرف احساس شرمندگی نہ ہو بلکہ یوسف (علیه السلام) کے دستر خوان پر ان کی موجو د گی کو یوسف (علیه السلام) کی ایک خدمت محسوس کریں ، حضرت یوسف (علیه السلام) نے انہیں بہت ہی عمدہ جواب دیا ۔ آپ نے کہا: br مصر کے لوگ اب تک مجھے ایک زر خرید غلام کی نظر سے دیکھتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے :
سبحان من بلغ عبداً بیع بعشرین درھماً مابلغ
پاک ہے وہ ذات جس نے اس غلام کو کہ جو بیس درہم میں بیچا گیا اس مقام تک پہنچا یا ۔
للیکن اب جب کہ تم لوگ آگئے ہو اور میری زندگی کی کتاب ان کے سامنے کھل گئی ہے تو وہ سمجھنے لگے کہ غلام نہیں تھا بلکہ میں خاندان نبوت سے تعلق رکھتا ہوں اور ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد میں سے ہوں اور یہ میرے لئے باعث ِ افتخار ہے ۔ 1۔
۳۔ کامیابی کا شکرانہ :مندرجہ بالا آیات میں یہ اہم اخلاقی درس اور واضح ترین اسلامی حکم موجود ہے کہ دشمن پر کامیابی کے وقت انتقام جو اور کینہ پر ور نہ بنو ۔
یوسف (علیه السلام) کے بھائیوں نے انہیں نہایت سخت صدمے پہنچائے تھے اور انہیں موت کی دہلیز تک پہنچا دیا تھا ۔ اگر لطف الہٰی شامل حال نہ ہوتا تو بچ جانا ان کے لئے ممکن نہ تھا صرف یہی نہیں کہ انہوں نے یوسف (علیه السلام) کو تکلیف پہنچائی تھی بلکہ ان کے والد کو بھی سخت مصیبت میں مبتلا کردیا تھا لیکن اب جب کہ وہ سب کے سب رازو نزار یوسف (علیه السلام) کے سامنے تھے اور یوسف (علیه السلام) کے پاس پوری قدرت و طاقت بھی تھی مگر حضرت یوسف (علیه السلام) کی گفتگو سے او ران کے کلمات کے اندر جھانکنے سے اچھی طرح محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دل میں نہ صرف یہ کہ کوئی کینہ موجو د نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات سے تکلیف ہوتی تھی کہ ان کے بھائی گزشتہ واقعے کو یاد کریں اور پریشان و غمزدہ ہوں اور شر مندگی محسوس کریں ۔ br یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیه السلام) پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ احساس ان کی روح سے نکال دیں ۔ یہا ں تک کہ اس سے بھی بڑھ کر وہ چاہتے ہیں کہ انہیں یقین دلائیں کہ ان کا مصر میں آنا اس لحاظ سے باعث افتخار ہے کہ خود حضرت یوسف(علیه السلام) کے بارے میں مزید آگاہی کا سبب بنا ہے او رلوگوں کو معلوم ہوا ہے کہ وہ خاندان ِ رسالت میں سے ہیں نہ کہ ایک کنعانی غلام ہیں کہ جسے چند درہموں میں بیچا گیا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ بھائی اس طرح محسوس کریں کہ نہ صرف یہ کہ میں ان پر احسان نہیں کررہا بلکہ وہ مجھ پر احسان کررہے ہیں ۔
یہ امر جاذب توجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کو ایسے ہیں حالات میںپیش آئے اور فتح مکہ کے موقع پر آپ کو خونخوار دشمنوں یعنی شرک و بت پرستی کے سر غنوں پر کامیابی حاصل ہو ئی تو ابن عباس کے بقول آ پ خانہ کعبہ کے پاس تشریف لائے ۔ اس وقت مخالفین کعبہ میں پناہ لے چکے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ پیغمبر اسلام ان کے بارے میں کیا حکم صادر کرتے ہیں ۔ ایسے میں آپ نے کعبہ کے کنڈے کو پکڑ کر فرمایا:
الحمد للہ الذی صدق وعدہ و نصرعبدہ و ھزم الاحزاب وحدہ
شکر ہے خدا کا کہ جس کا وعدہ پورا ہوا اور اس نے اپنے بندے کو کامیاب کیا اور دشمنون کے گروہوں کو شکست دی ۔ اس کے بعد آپ (علیه السلام) نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا :
ماذا تظنون معشر قریش
اے قریش والو! کیا گمان ہے کہ میں تمہارے بارے میں حکم دو ں گا ۔
قالوا خیراً ، اخ کریم ، و ابن اخ کریم و قد قدرت
انہوں نے جواب دیا : ہم تجھ سے خیر و نیکی کے علاوہ کوئی توقع نہیں رکھتے ۔ آپ کریم و شریف بھائی ہیں اور کریم و بزرگوار بھائی کے بیٹے ہیں اور اس وقت قدرت و طاقت آپ کے ہاتھ میں ہے ۔
قال و انا اقول کما قال اخی یوسف : لاتثریب علیکم الیوم
اس پر پیغمبر اکرم نے فرمایا : میں تمہارے بارے میں وہی کچھ کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف (علیه السلام) نے اپنے بھائیوں کے کے بارے میں کامیابی کے وقت کہا تھا ” لاتثریب علیکم الیوم “۔ یعنی ۔ آج تمہارے لئے روز ملامت و سر زنش نہیں ہے ۔
عمر کہتے ہیں :
ااس موقع پر میرے چہرے پر شرم و حیا سے پسینہ آگیا کیونکہ میں نے مکہ میں داخل ہوتے وقت ان سے کہا تھا : آج کے دن میں تم سے انتقام لوں گا ۔ جب پیغمبر نے وہ جملہ فرمایا تو مجھے اپنی گفتگو پر شرم آئی ۔2
روایات اسلامی میں بھی بار ہا یہ آیا ہے کہ :
کامیابی کی زکات عفو و بخشش ہے ۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
اذا قدرت علی عدوک فاجعل العفو عنہ شکراً للقدرة علیہ ۔
جس وقت تو اپنے دشمن پر کامیاب ہو جائے تو عفو بخشش کو اپنی کامیابی کا شکرانہ قرار دے ۔ 3
۹۴۔ وَلَمَّا فَصَلَتْ الْعِیرُ قَالَ اٴَبُوھُمْ إِنِّی لَاٴَجِدُ رِیحَ یُوسُفَ لَوْلاَاٴَنْ تُفَنِّدُونِی ۔
۹۵۔ قَالُوا تَاللهِ إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ ۔
۹۶۔ فَلَمَّا اٴَنْ جَاءَ الْبَشِیرُ اٴَلْقَاہُ عَلَیوَجْھِہِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا قَالَ اٴَلَمْ اٴَقُلْ لَکُمْ إِنِّی اٴَعْلَمُ مِنْ اللهِ مَا لاَتَعْلَمُونَ۔
۹۷۔ قَالُوا یَااٴَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ۔
۹۸۔ قَالَ سَوْفَ اٴَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی إِنَّہُ ھُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ۔
ترجمہ
۹۴۔جس وقت قافلہ ( س رزمین مصر سے) جد اہوا تو ان کے باپ ( یعقوب )نے کہا : اگر مجھے نادانی اور کم عقل کی نسبت نہ دو تو مجھے
یوسف کی خوشبو آرہی ہے ۔
۹۵۔ انہوں نے کہا: بخدا تو اسی گزشتہ گمراہی میں ہے ۔
۹۶۔ لیکن جب بشارت دینے والاآگیا ( اور اس نے ) وہ کرتہ ) اس کے چہرے پر ڈالا تو اچانک وہ بینا ہو گیا ۔ تو اس نے کہا : کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں خدا کی طرف ایسی چیزیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ۔
۹۷۔ انہوں نے کہا ابا ( جان ) ! خد اسے ہمارے گناہوں کی بخشش کو خواہش کریں ، بےشک ہم خطا کار تھے ۔
۹۸۔ اس نے کہا عنقریب میں اپنے پر ور دگار سے تمہارے لئے طلب بخشش کرو ںگا ۔ بے شک و ہ غفور و رحیم ہے ۔
1 ۔ تفسیر فخر رازی جلد ۱۸ ص ۲۰۶۔
2۔ تفسیر قرطبی، جلد ۵ ص ۳۴۸۷۔
3۔ نہج البلاغہ کلمات قصار ۔ جملہ ۱۱۔