(۳) کیا اس عہد وپیمان میں جبر کا پہلو ہے
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ۶۳ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ ۖ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۶۴
اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تم سے توریت پر عمل کرنے کا عہد لیا اور تمہارے سروں پر کوہ طور کو لٹکا دیا کہ اب توریت کو مضبوطی سے پکڑو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید اس طرح پرہیز گار بن جاؤ. پھر تم لوگوں نے انحراف کیا کہ اگر فضل هخدا اور رحمت الٰہی شامل حال نہ ہوتی تو تم خسارہ والوں میں سے ہوجاتے.
اس سوال کے جواب میں بعض کہتے ہیں کہ ان کے سروں پر پہاڑ کا مسلط ہونا ڈرانے اور دھمکانے کے طور پر تھا نہ کہ جبر واضطرار کے طور پر ورنہ جبر عہد وپیمان کی تو کوئی قدر وقیمت نہیں ہے ۔
لیکن زیادہ صحیح یہی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ سرکش اور باغی افراد کو تہدید و سزا کے ذریعہ حق کے سامنے جھکایا جائے ۔ یہ تہدید اور سختی وقتی طور پر ہے ان کے غرور کو توڑدے گی ۔ انہیں صحیح غور وفکر پر ابھارے گی اور اس راستے پر چلتے چلتے وہ اپنے ارادہ و اختیار سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے لگے ۔
بہر حال یہ پیمان زیادہ تر عملی پہلوؤں سے مربوط تھا ورنہ عقائد کو تو جبر واکراہ سے نہیں بدلا جاسکتا ۔