مصر کی بیوی کا عشقِ سوزاں
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ۲۳وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ۲۴
اور اس نے ان سے اظہار همحبتّ کیا جس کے گھر میں یوسف رہتے تھے اور دروازے بند کردیئے اور کہنے لگی لو آؤ یوسف نے کہا کہ معاذ اللہ وہ میرا مالک ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے اور ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے. اور یقینااس عورت نے ان سے برائی کا ارادہ کیااور وہ بھی ارادہ کربیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے یہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کیا کہ ان سے برائی اور بدکاری کا رخ موڑ دیں کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے.
حضرت یوسف (علیه السلام) نے اپنے خوبصورت، پرکشش اور ملکوتی چہرے سے نہ صرف مصر کو اپنی طرف کرلیا بلکہ کی بیوی بھی بہت جلدی آپ (علیه السلام) کی گرویدہ ہوگئی، آپ (علیه السلام) کا عشق اس کی روح کی گہرایوں میں اتر گیا ، جُوں جُوں وقت گزرتا گیا اس عشق کی حدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن یوسف (علیه السلام) کہ جو پاکیزہ اور پرہیزگار انسان تھے انہیںخدا کے علاوہ کسی کی بھی فکر وسوچ نہ تھی، ان کا دل فقط عشقِ الٰہی کا گرویدہ تھا ۔
کچھ اور امور بھی شامل ہوگئے جنہوں نے کی بیوی کے عشقِ سوزاں کو اور بھڑکادیا ۔
ایک تو اسے اولاد نہ ہونے کا ارمان تھا، دوسرا اس کی رنگینیوں سے بھر پور اشراف کی زندگی تھی، تیسرا داخلی زندگی میں اسے کو ئی پریشانی اور مسئلہ نہ تھا جیسا کہ اشراف اور نازونعمت میں پلنے والوں کی زندگی ہوتی ہے اور چوتھا دربار نصر میں کسی قسم کی کوئی پابندی اور قدغن نہ تھا، ان حالات میںوہ عورت کہ جو ایمان وتقویٰ سے بھی بے بہرہ تھی شیطانی وسوسوں کی موجوں میں غوطہ زن ہوگئی، یہاں تک کہ اس نے ارادہ کرلیا کہ اپنے دل کا راز یوسف سے بیان کرے اور اپنے دل کی تمنا ان سے پورا کرنے کا تقاضا کرے ۔
اپنے مقصد کے حصول کی خاطر اس نے ہر ذریعہ اور ہر طور طریقہ اختیار کیا اور بڑی خواہش کے ساتھ کوشش کی کہ ان کے دل کو متاثر کرے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے: جس عورت کے گھر میں یوسف تھے اس نے اپنی آرزو پورا کرنے کے لئے پیہم ان سے تقاضا کیا ( وَرَاوَدَتْہُ الَّتِی ھُوَ فِی بَیْتِھَا عَنْ نَفْسِہ)۔
”راودتہ“ اصل میں ”مرودة“ کے مادہ سے چراگاہ کی تلاش کے معنی میں ہے ، مثل مشہور ہے:
الرائد لایکذب قومہ۔
جو چراگاہ کی تلاش میں جاتا ہے وہ اپنی قوم قبیلے سے جھوٹ نہیں بولتا ۔
یہ بھی اسی مذکورہ معنی کی طرف اشارہ ہے ۔
اسی طرح سرما سلائی کہ جس سے آنکھوں میں آرام آرام سے سرما لگاتے ہیں کو”مِروَد“(بروزن مِنبر)کہا جاتا ہے ۔
بعد ازاں یہ لفظ ہر اس کام کے لئے بولا جانے لگا جو نرمی ، ملائمت اور آرام سے کیا جائے ۔
یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ زوجہ نے اپنا مقصود پانے کے لئے بڑی نرمی سے اور کسی قسم کی دھمکی کے بغیر ملائمت اور اظہار محبت سے یوسف (علیه السلام) کو دعوت دی ۔
آخرکار جو آخری راستہ اسے نظر آیا یہ تھا کہ ایک دن انہیں تنہا اپنی خلوت گاہ پھنسا نے اور ان کے جذبات ابھارنے کے لئے تمام وسائل سے کام لے، جاذب ترین لباس پہنے، بہترین بناؤ سنگار کرے بہت مہک دار عطر لگائے اور اس طرح سے آرائش وزیبائش کرے کی یوسف (علیه السلام) جیسے قوی انسان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے ۔
قرآن کہتا ہے: اس نے دروازوں کو اچھی طرح بند کرلیا اور کہا آؤ مَیں تمہارے لئے حاضر ہوں( وَغَلَّقَتْ الْاٴَبْوَابَ وَقَالَتْ ھَیْتَ لَکَ)۔
لفظ” غلقت“ مبالغہ کا معنی دیتا ہے اور نشاندہی کرتا ہے کہ اس نے تمام دروازے مضبوطی سے بند کےے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یوسف کو محل کی ایسی جگہ پر لے گئی کہ جہاں کمروں کے اندر کمرے بنے ہوئے تھے اور جیسا کہ بعض روایات میں آیاہے اس نے سات دروازے بند کےے تاکہ یوسف (علیه السلام) کے لئے فرار کی کوئی راہ باقی نہ رہے ۔
علاوہ ازیں شاید وہ اس طرح حضرت یوسف (علیه السلام) کو سمجھانا چاہتی تھی کہ وہ راز فاش ہونے سے پریشان نہ ہوں کیونکہ ان بند دروازوں کے ہوتے ہوئے کسی شخص کے بس میں نہیں کہ وہ اندر آسکے ۔
جب حضرت یوسف (علیه السلام) نے دیکھا کہ تمام حالات لغزش وگناہ کی حمایت میں ہیں اور ان کے لئے کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا تو انہوں نے زلیخاکو بس یہ جواب دیا: مَیں خدا سے پناہ مانگتا ہوں (قَالَ مَعَاذَ الله)۔
اس طرح حضرت یوسف (علیه السلام) نے زوجہ کی خواہش کو قطعی وحتمی طور پررد کردیا اور اسے سمجھایا کہ وہ ہرگز اس کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے، آپ نے ضمناً اسے اور تمام افراد کو یہ حقیقت سمجھا دی کہ ایسے سخت اور بحرانی حالات میں شیطانی وسوسوں اور ان سے کہ جو شیطانی عادات واخلاق رکھتے ہیں نجات کے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ خدا کی طرف پناہ لی جائے، وہ خدا کہ جس کے لئے خلوت اور بزم ایک سی ہے اور جس کے ارادے کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہرسکتی ۔
اس مختصر سے جملے سے انہوں نے عقیدے اور عمل کے لحاظ سے خدا کی وحدانیت کا اعتراف کیا، اس کے بعد مزید کہا کہ تما م چیزوں سے قطعِ نظر ”مَیں ایسی خواہش کے سامنے کس طرح سے سرِ تسلیم خم کرلوں جب کہ مَیں مصر کے گھر میں رہتا ہوں، اس کے دستر خوان پر ہوں اور اسنے مجھے بہت احترام سے رکھا ہوا ہے “(ِ إِنَّہُ رَبِّی اٴَحْسَنَ مَثْوَایَ )، کیا یہ واضح خیانت نہ ہوگی ،”یقیناستمگار فلاح نہیں پائیں گے(إِنَّہُ لَایُفْلِحُ الظَّالِمُونَ)۔
اس جملے میں ”رب“سے کیا مراد ہے؟
اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے ، اکثر مفسرین نے مثلا مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں اور مولف المنار نے المنار میں ”رب“ کو اس کے وسیع معنی میں لیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مراد مصر ہے کہ جس نے حضرت یوسف (علیه السلام) کے احترام واکرام میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اور شروع ہی میں ”اکرمی مثواہ“ کہہ کر یوسف ع کے لئے اپنی بیوی سے سفارش کی تھی ۔
یہ گمان بالکل غلط ہے کہ لفظ”رب“ اس معنی میں استعمال نہیں ہوتا کیونکہ اس سورة میں متعدد مقامات پر لفظ”رب“ کا اطلاق غیرِ خدا پر ہوا ہے، کبھی حضرت یوسف (علیه السلام) کی زبان سے اور کبھی کسی اور کی زبان سے ، مثلا قیدیوں کے خواب کے واقعہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ جس قیدی کو آپ(علیه السلام) نے آزادی کی بشارت دی تھی اس سے کہا کہ اپنے رب ” مصر“ سے میرا ذکر کرنا ۔
<وَقَالَ لِلَّذِی ظَنَّ اٴَنَّہُ نَاجٍ مِنْھُمَا اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّک(آیت۴۲)۔
نیز حضرت یوسف (علیه السلام) کی زبانی ہے کہ :
< فَلَمَّا جَائَہُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلیٰ رَبِّکَ فَاسْاٴَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللاَّتِی قَطَّعْنَ اٴَیْدِیَھُن (آیت:۵۰)
جب فرعونِ مصر کا فرستادہ ان کے پاس آیاتو انہوں نے کہا اپنے رب (فرعون)کے واپس جا ؤ اور اس سے تقاضاکرو کہ وہ تحقیق کرے کہ زناِن مصر نے اپنے ہاتھ کیوں کاٹ لئے تھے ۔
اس سورہ کہ آیہ ۴۱ میں حضرت یوسف (علیه السلام) کی زبانی اور آیہ ۴۲ میں قراان کی زبانی لفظ”رب“ کا اطلاق مالک اور صاحبِ نعمت پر ہوا ہے ۔
لہٰذا آپ دیکھ رہے ہیں کہ زیرِ بحث آیت کے علاوہ اسی سورہ میں چار مرتبہ لفظ”رب“ کا اطلاق غیر خدا پر ہوا ہے اگرچہ اسی سورہ میں اور قرآن کی دوسری سورتوں میں یہ لفظ بار ہا پروردگارعالم کے لئے استعمال ہوا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ یہ ایک مشترک لفظ ہے اور اس کا اطلاق دونوں معانی پر ہوتا ہے ۔
بہرحال بعض مفسرین نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ زیر بحث آیت ”انہ ربی احسن مثوای“ ، میں لفظ ”رب“ ”خدا“ کے معنی میں ہے کیونکہ لفظ ”اللہ“ کہ جو ساتھ ذکر ہوا ہے ، سبب بنتا ہے کہ ضمیر اسی کی طرف لوٹے، لہٰذا اس صورت میں جملے کا معنی یوں ہوگا:
مَیں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ جو میرا پروردگار ہے اور جس نے میرے مقام کو محترم قرار دیا ہے اور مجھے حاصل نعمت اسی کی طرف سے ہے ۔
لیکن ”اکرمی مثوای“ کے لفظوں سے مصر کی سفارش کی طرف توجہ کی جائے تو اسی لفظ ”مثوای“ کا تکرار زیر ِ بحث آیت میں ہوا ہے، اس سے پہلے معنی کو تقویت ملتی ہے، تورات کی فصل ۳۹ شمارہ ۸،۹ اور ۱۰ میں یوں ہے-:
اور اس کے بعد یہ ہوا کہ اس کے آقا کی بیوی نے اپنی آنکھیں یوسف پر مرکوز کردیں اورکہنے لگی: میرے ساتھ سوجا ۔
لیکن اس نے انکار کردیا اور اپنے آقا کی بیوی سے کہا: جو کچھ اس گھر میں میرے ساتھ ہورہا ہے میرا آقا اس سے آگاہ نہیں ہے ، اس نے اپنی تمام ملکیت میرے سپرد کررکھی ہے، اس گھرمیں مجھ سے بڑا کوئی نہیںہے اور میرے کسی چیز کے لینے میں اس نے کوئی مضائقہ نہیں سمجھا، سوائے تیرے کہ جو اس کی بیوی ہے لہٰذا مَیں یہ قباحت ِ عظیم کیسے انجام دوں گا کہ جوخدا کا معصیت ہے ۔
تورات کے یہ جملے بھی پہلے معنی کی تائید کرتے ہیں ۔
یہاںیوسف اور زوجہ کا معاملہ نہایت باریک مرحلے اور انتہائی حساس کیفیت تک پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق قرآن بہت معنی خیز انداز میں گفتگو کرتا ہے: مصر کی بیوی نے اس کا قصد کیا اور اگر یوسف بھی برھانِ پروردگار نہ دیکھتا تو ارادہ کرتا( وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہِ وَھَمَّ بِھَا لَوْلَااٴَنْ رَاٴَی بُرْھَانَ رَبِّہِ )۔
اس جملے کے معنی کے متعلق مفسرین میں بہت اختلاف ہے، اس کا خلاصہ درج ذیل تین تفسیر میں کیا جاسکتا ہے:
۱۔ مصر کی بیوی نے یوسف سے اپنی آزادی کو پورا کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا اور اس کے لئے اپنی انتہایہ کوشش کی ، یوسف بھی نوخیز جوان تھے، ابھی تک ان کی شادی بھی نہ ہوئی تھی اور نہایت ہیجان انگیز جنسی کیفیت ان کے سامنے تھی وہ بھی طبع بشری کے تقاضے سے ایسا ارادہ کرلیتے اگر برھان ِ پروردگار یعنی روح ، ایمان وتقویٰ ، تربیتِ نفس اور آخرکار مقامِ عصمت اس میں حائل نہ ہوتا ۔
اس بنا پر مصر کی بیوی کے ”ھم“ (قصد)اور یوسف کے قصد کے درمیان فرق یہ تھا کہ یوسف کی طرف سے ایک شرط سے مشروط تھا کہ جو حاصل نہ ہوئی (یعنی برھانِ پروردگار کا عدم وجود)لیکن کی بیوی کی طرف سے مطلق تھا اور چونکہ وہ اس قسم کے مقامِ تقویٰ وپرہیزگاری کی حامل نہ تھی اس لئے اس نے یہ ارادہ کرلیا اورآخری مرحلے تک اس پر قائم رہی، یہاں تک کہ اس کی پیشانی پتھر سے ٹکرائی ۔
ایسے جملوں کی نظیر عربی اور فارسی ادب میں بھی موجود ہے ، مثلا ہم کہتے ہیں کہ بے لگام افرادنے فلاں کسان کے پھلوں کا باغ غارت کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا ہے، مَیں نے بھی اگر سالہا سال مکتبِ استاد میں تربیت حاصل نہ کی ہوتی تو اس قسم کا ارادہ کرتا ۔
اس بناء حضرت یوسف (علیه السلام)کا ارادہ ایک شرط سے مشروط تھا، جو حاصل نہ ہوئی اور یہ شرط نہ صرف حضرت یوسف (علیه السلام) کے مقامِ عصمت اور تقویٰ کے منافی نہیں بلکہ اس بلند مقام کی وضاحت ہے ۔
اس تفسیر کے مطابق حضرت یوسف (علیه السلام) سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیںہوئی کہ جو ان کے ارادہ گناہ کی نشانی بنے بلکہ انہوں نے دل میں بھی ایسا ارادہ نہیں کیا ۔
لہٰذا بعض ایسی روایات کہ جن میں ہے کہ یوسف (علیه السلام) مصر کی بیوی سے خواہش پورا کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے تھے یہاں تک کہ لباس بھی اتار لیا تھا اور ایسی ہی دوسری عبارتیں کہ جنہیں نقل کرتے ہوئے شرم آتی ہے، سب بے بنیاد، مجہول اور جعلی ہیں اور ایسے اعمال آلودہ ، بے لگام، ناپاک اور غلط افراد سے صادر ہوتے ہیں حضرت یوسف (علیه السلام)اپنی پاکیزگی روح اور بلند مقامِ تقویٰ کے حامل تھے انہیں ایسے کاموں سے کس طرح متہم کیا جاسکتا ہے ۔
یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ حضرت امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام سے ایک حدیث میں یہی تفسیر بہت ہی جچی تلی اور مختصر عبارت میں بیان ہوئی ہے، حدیث کچھ یوں ہے:
عباسی خلیفہ مامون امام(علیه السلام) سے پوچھتا ہے: کیا آپ حضرات نہیں کہتے کہ انبیاء معصوم ہیں ۔
فرمایا: جی ہاں ۔
اس نے کہا-: پھر قرآن کی اس آیت کی تفسیر کیا ہے-” وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہِ وَھَمَّ بِھَا لَوْلَااٴَنْ رَاٴَی بُرْھَانَ رَبِّہِ“ ۔
امام نے فرمایا:
وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہِ و لَوْلَااٴَنْ رَاٴَی بُرْھَانَ رَبِّہِ لھم بھا کماھمت بہ لکن کان معصوما والمعصوم لا یھم بذنب ولا یاتیہ۔۔۔
یعنی ۔ زوجہ نے یوسف (علیه السلام) سے اپنی خواہش کی تکمیل کا ارادہ کیا اور یوسف بھی اگر اپنے پروردگار کی برھان نہ دیکھتے تو مصر کی بیوی کی طرح ارادہ کرتے لیکن وہ تو معصوم تھے اورمعصوم کبھی بھی گناہ کا ارادہ نہیں کرتا اور گناہ کے پیچھے نہیں جاتا ۔
مامون کو اس جواب پر بہت لطف آیا، اس نے کہا:
للہ درک یا ابالحسن
آفرین آپ پر اے ابالحسن!
۲۔ مصر کی بیوی اور یوسف (علیه السلام) میں سے کسی کا ارادہ بھی جنسی خواہش سے مربوط نہ تھا بلکہ حملہ کرنے اور ایک دوسرے کو مارپیٹنے کا ارادہ تھا ۔ زوجہ چونکہ عشق میں شکست خوردہ تھی اس لئے اس میں انتقام کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا اور یوسف (علیه السلام) اپنا دفاع کرنا چاہتے تھے اور اس عورت کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیںکرنا چاہتےء تھے ۔
اس امر کے لئے جو قرائن ذکر کئے گئے ہیں ا ن میں سے ایک یہ ہے کہ زوجہ نے مطلب براری کا اراہ تو بہت پہلے سے کیا ہوا تھا اور اس کے لئے اس نے تمام لوازمات پورے کررکھے تھے لہٰذا اس بات کا کوئی موقع نہیں تھا کہ قرآن کہے کہ اس نے اس کام کا ارادہ کیا کیونکہ ارادے کا موقع نہ تھا ۔
دوسرا یہ کہ اس شکست کے بعد سختی اور انتقام جوئی کی کیفیت پیدا ہونا فطری ہے کیونکہ یوسف (علیه السلام) سے نرمی اور پیار محبت کے لئے جو کچھ اس کے بس میں تھا وہ کرچکی تھی اور چونکہ اس طرح ان پر اثر انداز نہیں ہوسکی تھی اس لئے اس نے دوسرا ہتھیار استعمال کرنا چاہا اور یہ سختی کا ہتھیار تھا ۔
تیسرا یہ کہ آیت میں :”کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ“(، ہم نے بدی اور فحشاء دونوں کو یوسف سے دُور کردیا) ”فحشاء“ کا معنی عہی بے حیائی اور آلودہ ہونا ہے، اور ”سوء“ مصر کے تشدد سے نجات ہے ۔
لیکن یوسف (علیه السلام) نے چونکہ برھانِ پروردگار کو دیکھ لیا تھا لہٰذا اپنے آپ کو اس عورت سے دست وگریبان ہونے سے بچایا تا کہ کہیں وہ حملہ کرکے انہیں زخمی نہ کردے اور یہ پھر ان کے ارادہ تجاواز کی دلیل بن جائے لہٰذا انہوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ اس جگہ سے دُور چلے جائیں اور وہ دروازے کی طرف بھاگے ۔
۳۔ اس میں شک نہیں کہ یوسف (علیه السلام) جوان تھے، جوانی کے تمام احساسات اور جذبات بھی ان میں موجود تھے اگر چہ ان کے قوی جذبات ان کی عقل اور ایمان کے کے ماتحت تھے لیکن فطری بات یہ کہ جب ایسا انسان کسی انتہائی ہیجان انگیز موقع سے دوچار ہوتو اس کے اندر ایک طوفان پیدا ہوتا ہے ، جزبات اور عقل ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے لئے اٹھ گھڑے ہوتے ہیں، جزبات کو بھڑکانے والے عوامل کی موجیں جس قدر زیادہ قوی ہوں گی اس کا پلڑا بھاری ہوگا، یہاں تک کہ ہوسکتا ہے کہ ایک انتہائی مختصر لمحے کے لئے ان کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ قدم تھوڑا سا آگے پڑے تو ہولناک لغزش کا سامنا کرنا پڑے ۔
اچانک ایمان وعقل کی قوت ہیجان میں آجاتی ہے اور اصلاح کے مطابق آمادہ جنگ ہوجاتی ہے اور مخالف فوج کو شکست دے دیتی ہے اور جذبار کی قوت کے جو قعرِ مذلت کے کنارے پہنچ جاتی ہے اسے پیچھے دھکیل دیتی ہے ۔
یہ مختصر حساس اور بحرانی لحظہ کہ جو اطمینان وسکون کے دو زمانوں کے درمیان تھا، قرآن نے اس کی تصویر کشی کی ہے، اس بناء پر ”وھم بھا لولا ان را برھان ربہ“ سے مراد ہے کہ جذبات اور عقل کی کش مکش میں یوسف (علیه السلام) قعرِ مزلت وگناہ کے لبوں تک آپہنچے تھے کہ اچانک ایمان وعقل کی بہت زیادہ قوت جمع ہوگئی اور اس نے جذبات کے طوفان کو شکست دے دیاب کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یوسف (علیه السلام) اگراس پھسلن اور گرنے کی جگہ سے بچ گئے تو یہ کوئی معمولی کام تھا کیونکہ گناہ اور ہیجان کے عوامل ان کے وجود سے بہت کمزور تھے، نہیں ایسا ہرگز نہیں بلکہ آپ (علیه السلام) اپنی پاکیزگی کی حفاظت کے لئے اس حساس ترین لمحے میں جہاد بالنفس کے انتہائی شدید معرکے سے گزرے ۔