Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۱۔ ایک ترکِ اولیٰ کے بدلے

										
																									
								

Ayat No : 15-18

: يوسف

فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ۱۵وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ ۱۶قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ۱۷وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ۱۸

Translation

اس کے بعد جب وہ سب یوسف کو لے گئے اور یہ طے کرلیا کہ انہیں اندھے کنویں میں ڈال دیں اور ہم نے یوسف کی طرف وحی کردی کہ عنقریب تم ان کو اس سازش سے باخبر کرو گے اور انہیں خیال بھی نہ ہوگا. اور وہ لوگ رات کے وقت باپ کے پاس روتے پیٹے آئے. کہنے لگے بابا ہم دوڑ لگانے چلے گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو ایک بھیڑیا آکر انہیں کھاگیا اور آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم کتنے ہی سچے کیوں نہ ہوں. اور یوسف کے کرتے پر جھوٹا خون لگاکر لے آئے -یعقوب نے کہا کہ یہ بات صرف تمہارے دل نے گڑھی ہے لہذا میرا راستہ صبر جمیل کا ہے اور اللہ تمہارے بیان کے مقابلہ میں میرا مددگارہے.

Tafseer

									ابوحمزہ ثمالی نے ایک روایت امام سجاد (علیه السلام) سے نقل کی ہے ابوحمزہ کہتے ہیں:
جمعہ کے دن مَیں مدینہ منورہ میں تھا، نمازِ صبح مَیں نے امام سجاد (علیه السلام) کے ساتھ پڑھی، جس وقت امام نماز اور تسبیح سے فارغ ہوگئے تو گھر کی طرف چل پڑے، میں آپ کے ساتھ تھا ۔
آپ (علیه السلام) نے خادمہ کو آواز دی اور کہا:
خیال رکھنا جو سائل، ضرورت مند گھر کے دروازے سے گزرے اسے کھانا دینا کیونکہ آج جمعہ کا دن ہے ۔
ابوحمزہ کہتے ہیں:
مَیں نے کہا: ہروہ شخص کو مدد کا تقاضا کرتا ہے مستحق نہیں ہوتا، تو امام نے فرمایا:
ٹھیک ہے، لیکن مَیں اس سے ڈرتا ہوں کہ ان میں مستحق افراد ہوں اور ہم انہیں غذا نہ دیں اور اپنے گھر کے دروازے سے دھتکار دیں تو کہیں ہمارے گھر والوں پر وہی مصیبت نہ آن پڑے جو یعقوب (علیه السلام) اور آلِ یعقوب پر آن پڑی تھی ۔
اس کے بعد فرمایا:
ان سب کو کھانا دو کہ(کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ) یعقوب (علیه السلام) کے لئے ہرروز ایک گوسفند ذبح کی جاتی تھی، اس کا ایک حصہ مستحقین کو دیا جاتا تھا، ایک حصہ وہ جناب خود اور ان کی اولاد کھاتے تھے ایک دن ایک سائل آیا، وہ مومن اور روزہ دار تھا، خدا کے ہاں اس کی بڑی قدرومنزلت تھی، وہ شہر(کنعان) سے گزرا، شبِ جمعہ تھی، افطار کے وقت وہ دروازہ یعقوب (علیه السلام) پر آیا اور کہنے لگا: بچی کھچی غذا سے مدد کے طالب غریب ومسافر مہمان کی مدد کرو، اس نے یہ بات کئی مرتبہ دہرائی، انہوں نے سنا تو سہی لیکن اس کی بات کو باور نہ کیا، جب وہ مایوس ہوگیا اور رات کی تاریکی ہر طرف چھا گئی تو وہ لوٹ گیا، جاتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، اس نے بارگاہ الٰہی میں بھوک کی شکایت کی، رات اس نے بھوک ہی میں گزاری اور صبح اسی طرح روزہ رکھا جب کہ وہ صبر کئے ہوئے تھا اور خدا کی حمد وثنا کرتا تھا لیکن حضرت یعقوب (علیه السلام) اور ان کے گھر والے مکمل طور پر سیر تھے اور صبح کے وقت ان کا کچھ کھانا بچا بھی رہ گیا تھا ۔
امام (علیه السلام) نے اس کے بعد مزید فرمایا:
خدا نے اسی صبح حضرت یعقوب (علیه السلام) کی طرف وحی بھیجی: اے یعقوب! تپونے میرے بندے کو خوار کیا ہے اور میرے غضب کو بھڑکایا ہے اور تُو اور تیری اولاد نزولِ سزا کی مستحق ہوگئی ہے، اے یعقوب ! مَیں اپنے دوستوں کو زیادہ جلدی سرزنش کرتا اور سزا دیتا ہوں اور یہ اس لئے کہ مَیں ان سے محبت کرتا ہوں ۔(1)
یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ اس حدیث کے بعدہے کہ ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں:
مَیں نے امام سجاد (علیه السلام) سے پوچھا: کہ یوسف (علیه السلام) نے وہ خواب کس موقع پر دیکھا تھا؟
امام (علیه السلام) نے فرمایا: اسی رات۔(2)
اس حدیث سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء واولیائے حق سے ایک چھوٹی سی لغزش یا زیادہ صریح الفاظ میں”ترکِ اولیٰ“ کہ جو گناہ اورمعصیت بھی شمار نہیں ہوتا تھا (کیونکہ اس سائل کی حالت حضرت یعقوب (علیه السلام) پر واضح نہیں تھی) بعض اوقات خدا کی طرف سے ان کی تنبیہ کا سبب بنتا ہے اور یہ صرف اس لئے ہے کہ ان کا بلند وبالا مقام تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات اور عمل کی طرف متوجہ رہیں کیونکہ: 
حسنات الابرار سیئات المقربین۔
وہ کام جو نیک لوگوں کے لئے نیکی شمار ہوتے ہیں مقربینِ بارگاہِ الٰہی کے لئے برائی ہیں ۔
جہاں حضرت یعقوب (علیه السلام) ایک سائل کے دردِ دل سے بے خبر رہنے کی وجہ سے یہ رنج وغم اٹھائیں تو ہمیں سوچنا چاہیئے کہ وہ معاشرہ جس میں چند لوگ سیر ہوں اور زیادہ تر لوگ بھوکے ہوں کیسے ممکن ہے کہ اس پر غضب الٰہی نہ ہو اور کس طرح خدا سے سزا نہ دے ۔

 

1، 2۔ تفسیر برہان، ج۲،ص ۲۴۳، اور نورالثقلین،ج ۲،ص ۴۱۱۔