Tafseer e Namoona

Topic

											

									  امید کی کرن اور مشکلات کی ابتدا

										
																									
								

Ayat No : 4-6

: يوسف

إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ ۴قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ ۵وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ۶

Translation

اس وقت کو یاد کرو جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ بابا میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور آفتاب و ماہتاب کو دیکھا ہے اور یہ دیکھا ہے کہ یہ سب میرے سامنے سجدہ کررہے ہیں. یعقوب نے کہا کہ بیٹا خبردار اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا کہ وہ لوگ الٹی سیدھی تدبیروں میں لگ جائیں گے کہ شیطان انسان کا بڑا کھلا ہوا دشمن ہے. اور اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں منتخب کرے گا اور تمہیں باتوں کی تاویل سکھائے گا اور تم پر اور یعقوب کی دوسری اولاد پر اپنی نعمت کو تمام کرے گا جس طرح تمہارے دادا پرداد ابراہیم اور اسحاق پر تمام کرچکا ہے بیشک تمہارا پروردگار بڑا جاننے والا ہے اور صاحب هحکمت ہے.

Tafseer

									حضرت یوسف (علیه السلام) کے واقعے کا آغاز قرآن ان کے عجیب اور معنی خیز خواب سے کرتا ہے کیونکہ یہ خواب دراصل حضرت یوسف (علیه السلام) کی تلاطم خیز زندگی کا پہلا موڑ شمار ہوتا ہے ۔
ایک دن صبح سویرے آپ بڑے شوق اور وارفتگی سے باپ کے پاس آئے اور انہیں ایک نیا واقعہ سنایا جو ظاہراً زیادہ اہم نہ تھا لیکن درحقیقت ان کی زندگی میں ایک تازہ باب کھلنے کا پتہ دے رہا تھا ۔
یوسف (علیه السلام) نے کہا-: ابا جان! مَیں نے کل رات گیارہ ستاروںکو دیکھا کہ وہ آسمان سے نیچے اترے ، سورج اور چاندان کے ہمراہ تھے، سب کے سب میرے پاس آئے اور میرے سامنے سجدہ کیا (اِذْ قَالَ یُوسُفُ لِاٴَبِیہِ یَااٴَبَتِ إِنِّی رَاٴَیْتُ اٴَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاٴَیْتُھُمْ لِی سَاجِدِینَ) ۔
ابنِ عباس کہتے ہیں کہ حضرت یوسف (علیه السلام) نے یہ خواب شبِ جمعہ دیکھا تھا کہ جو شب قدر بھی تھی (وہ رات جو مقدرات کے تعین کی رات ہے) ۔
یہ کہ حضرت یوسف (علیه السلام) نے جب یہ خواب دیکھا اس وقت آہہ کی عمر کتنے سال تھی، اس سلسلے میں بعض نے نو سال، بعض نے بارہ سال اور بعض نے سات سال عمر لکھی ہے، جوبات مسلم ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت آپ بہت کم سن تھے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ لفظ”راٴیت “ کا اس آیت میں تاکید اور قاطعیت کے ساتھ تکرار ہوا ہے، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مَیں ان بیشتر افراد کی طرح نہیں ہوں کہ جو خواب کا کچھ حصہ بھول جاتے ہیں اور اس کے بارے میں تردد وشک سے بات کرتے ہیں، مَیںنے پورے یقین سے دیکھا ہے کہ گیارہ ستاروں، سورج اور چاند نے میرے سامنے سجدہ کیا ہے، اور اس امر میں مجھے کوئی شک وشبہ نہیں ہے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہاں ضمیر ”ھم“ استعمال ہوئی ہے کہ جو ذوی العقول کے لئے بولی جانے والی جمع مذکر کی ضمیر ہے ، اسی طرح لفظ ”ساجدین “ بھی آیا ہے ۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ ان کا سجدہ کرنا کوئی اتفاقی امرنہ تھا بلکہ ایک واضح پروگرام کے ماتحت وہ عاقل افراد کی طرح سجدہ کررہے تھے ۔
البتہ واضح ہے کہ سجدہ سے یہاں مراد خضوع اور احترام ہے ورنہ سورج، چاند اور ستاروں کے لئے سجدے کا مفہوم عام انسانون کے سجدے کا سا نہیں ہے ۔
اس ہیجان انگیز اور معنی خیز خواب پر خدا کے پیغمبر یعقوب (علیه السلام) فکر میں ڈوب گئے کہ سورج، چاند اور آسمان کے گیاری ستارے، وہ بھی گیارہ ستارے نیچے اُترے اور میرے بیٹے یوسف کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے، یہ کس قدر معنی آفریں ہے، یقینا سورج اور چاند مَیں اور اس کی ماں (یامَیں اور اس کی خالہ )ہے اورگیارہ ستارے اس کے بھائی ہیں میرے بیٹے کی قدر ومنزلت اور مقام اس قدر بلند ہوگا کہ آسمان کے ستارے ، سورج اور چاند اس کے آستانہ پر جبہ سائی کریں گے، یہ بارگاہ الٰہی میں اس قدر عزیز اور باوقار ہوگا کہ آسمان والے بھی اس کے سامنے خضوع کریں گے، کتنا پُر شکوہ اور پُرکشش خواب ہے ۔
لہٰذا پریشانی اور اضطراب کے انداز میں کہ جس میں ایک مسرت بھی تھی، اپنے بیٹے سے کہنے لگے: میرے بیٹے، اپنایہ خواب بھائیوں کو نہ بتانا (قَالَ یَابُنَیَّ لَاتَقْصُصْ رُؤْیَاکَ عَلیٰ إِخْوَتِک)، کیونکہ وہ تیرے خلاف خطرناک سازش کریں گے 
نہ کرنا ورنہ وہ تیرے لئے خطرناک سازش کریں گے کیونکہ شیطان انسان کا کُھلا دشمن ہے ۔ ( فَیَکِیدُوا لَکَ کَیْدًا) ۔
مَیں جانتا ہوں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ( إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُبِینٌ)، وہ موقع کی تاڑ میں ہے تاکہ اپنے وسوسوں کا آغازکرے، کینہ وحسد کی آگ بڑکائے، یہاں تک کہ بھائیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادے ۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیه السلام) نے یہ نہیں کہا کہ مجھے ڈر یے کہ بھائی ترے بارے میں بُرا ارادی کریں گے بلکہ اسے ایک قطعی امر کی شکل میں خصوصا لفظ ”کیدا“ کی تکرار کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جو تاکید کی دلیل ہے آپ اپنے سب بیٹوں کی نفسیات سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ یوسف کے بارے میں کتنے حساس ہیں، شاید یوسف کے بھائی بھی خواب کی تعبیر کے بارے میں ناواقف نہ تھے ولاوہ ازیں یہ کواب ایسا تھا جس کی تعبیر زیادہ پیچیدہ نہ تھی ۔
دوسری طرف یہ خواب بچگانہ خوابوں کی طرح نہ تھا ، ہوسکتا ہے کوئی بچہ خواب میں چاند اور ستاروں کو دیکھے لیکن باشعور موجودات کی طرح چاند ستارے اس کے آگے سجدہ کریں، یہ کوئی بچگانہ خواب نہیں ہے، ان وجوہ کی بنیاد پر حضرت یعقوب (علیه السلام) بجا طور پر یوسف کے بارے میں بھائیوں کی طرف سے حسد کی آگ بھڑک اٹھنے کے بارے میں خوفزدہ تھے ۔
لیکن یہ خواب صرف مستقبل میں یوسف (علیه السلام) کے مقام کی ظاہری ومادی عظمت بیان نہیں کرتا تھا بلکہ نشاندہی کرتا تھا کہ وہ مقامِ نبوت تک بھی پہنچے گے کیونکہ آسمان والوں کا سجدہ کرنا آسمانی مقام کے بلند ی پر پہنچنے کی دلیل ہے اسے لئے تو ان کے پدر بزرگوار حضرت یعقوب (علیه السلام) نے مزید کہا:اور اس طرح تیرا پروردگار تجھے منتخب کرے گا ( وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیکَ رَبُّک)، اور تجھے تعبیرِخواب کا علم دے گا ( وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاٴْوِیلِ الْاٴَحَادِیث)(۱) ۔
”احادیث“ ”حدیث“ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ایک واقعہ نقل کرنا،انسان چونکہ ااپنا خواب اِدھر اُدھر بیان کرتا ہے لہٰذا یہاں یہ خواب کے لئے کنایہ ہے ۔
اور اپنی نعمت تجھ ہر اور آلِ یعقوب پر تمام کرے گا (وَیُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَعَلیٰ آلِ یَعْقُوبَ)، جیسے اس نے قبل ازیں تیرے باپ ابراہیم اور اسحاق پرکی ہے (کَمَا اٴَتَمَّھَا عَلیٰ اٴَبَوَیْک َ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاھِیمَ وَإِسْحَاق) ۔
ہاں ! تیرا پروردگارعالم ہے اور حکمت کے مطابق کام کرتا ہے ( إِنَّ رَبَّکَ عَلِیمٌ حَکِیمٌ) ۔

 

۱۔ ”تاویل“در اصل کسی چیز کو لوٹا دینے کے معنی ہے اور کوئی کام یا بات اگر اپنے آخری مقصد تک پہنچ جائے تو اسے ”تاویل“ کہتے ہیں، خارجی طور پر خواب کا صورت پزیر ہوجانابھی ”تاویل“ کا مصداق ہے ۔