قومِ لُوط کا اخلاق
قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ ۖ فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَكَ ۖ إِنَّهُ مُصِيبُهَا مَا أَصَابَهُمْ ۚ إِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۚ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ ۸۱فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ ۸۲مُسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ ۖ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ ۸۳
تو فرشتوں نے کہا کہ ہم آپ کے پروردگار کے نمائندے ہیں یہ ظالم آپ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے ہیں -آپ اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کسے حّصے میں چلے جائیے اور کوئی شخص کسی کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے سوائے آپ کی زوجہ کے کہ اس تک وہی عذاب آنے والا ہے جو قوم تک آنے والا ہے ان کا وقت مقرر ہنگام هصبح ہے اور کیا صبح قریب نہیں ہے. پھر جب ہمارا عذاب آگیا تو ہم نے زمین کو تہ و بالا کردیا اور ان پر مسلسل کھرنجے دار پتھروں کی بارش کردی. جن پر خدا کی طرف سے نشان لگے ہوئے تھے اور وہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور نہیں ہے.
اسلامی روایات وتواریخ میں جنسی انحرفات کے ساتھ قومِ لوط کے برے اور شرمناک اعمال اور گھٹیا کردار بھی بیان ہوا ہے، اس سلسلے میں سفینة البحار میں ہے:
قیل کانت مجالسھم تشتمل علی انواع المناکیر مثل الشتم والسخف والصفح والقمار وضرب المخراق وخذف الاحجار علی من مر بھم وضرب المعازف والمزامیر وکشف العورات۔
کہا گیا ہے کہ ان کی مجالس اور بیٹھکیں طرح طرح کے منکرات اور برے اعمال سے آلودہ تھیں، وہ آپس میں رکیک جملوں، فحش کلامی اور پھبتیوں کا تبادلہ کرتے تھے، ایک دوسرے کی پشت پر مُکّے مارتے تھے طرح طرح کی آلاتِ موسیقی استعمال کرتے تھے اور لوگوں کے سامنے اپنی شرم گاہوں کا ننگا کرتے تھے ۔ (1)
واضح ہے کہ اس قسم کے گندے ماحول میں ہرروز انحراف اور بدی نئی شکل میں رونما ہوتی ہے اور وسیع سے وسیع ہوتی چلی جاتی ہے، ایسے موحول میں اصولی طور پر بُرائی کا تصور ختم ہوجاتا ہے اور لوگ اس طرح سے اس راہ پر چلتے ہیں کہ کوئی کام ان کی نظر میں برا اور قبیح نہیں رہتا، اس سے زیادہ بد بخت وہ قومیں ہیں جو وعلمِ کی پیش رفت کے زمانے میں انھیں راہوں پر گامزن ہیں، بعض اوقات تو ان کے اعمال اس قدر شرمناک اور رسوا کن ہوتے ہیں کہ قومِ لوط کے اعمال بھو ل جاتے ہیں ۔
۸۴ وَإِلیٰ مَدْیَنَ اٴَخَاھُمْ شُعَیْبًا قَالَ یَاقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَکُمْ مِنْ إِلَہٍ غَیْرُہُ وَلَاتَنقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ إِنِّی اٴَرَاکُمْ بِخَیْرٍ وَإِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُحِیطٍ۔
۸۵ وَیَاقَوْمِ اٴَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَاتَبْخَسُوا النَّاسَ اٴَشْیَائَھُمْ وَلَاتَعْثَوْا فِی الْاٴَرْضِ مُفْسِدِینَ۔
۸۶ بَقِیَّةُ اللهِ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ وَمَا اٴَنَا عَلَیْکُمْ بِحَفِیظ۔
ترجمہ
۸۴۔اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا، اس نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کراو، اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں اور پیمانہ اور وازن کم نہ کرو (کم فروشی نہ کرو)مَیں تمہارا خیر خواہ ہوں اور مِیں تمھارے لئے محیط ہوجانے والے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔
۸۵۔اے میری قوم! پیمانہ اور وززن عدالت سے پورا کرو اور لوگوں کی اشیاء (اجناس)پر قابو نہ رکھو اور ان کے حق میں کمی نہ کرو اور زمین میں فساد نہ کرو۔
۸۶۔خدا نے تمھارے لئے جو حلال سرمایہ باقی رکھا ہے وہ تمھارے لئے بہتر ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو اور میں تمہارا پاسدار (اور تمھیں ایمان پر مجبور کرنے والا)نہیں ہوں ۔
1۔ سفینة البحار، ص ۵۱۷۔