Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ۲۔ کیا نزول عذاب کے بعد توبہ ممکن ہے؟:

										
																									
								

Ayat No : 40-43

: هود

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ۴۰وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمٌ ۴۱وَهِيَ تَجْرِي بِهِمْ فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ يَا بُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلَا تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ ۴۲قَالَ سَآوِي إِلَىٰ جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ ۴۳

Translation

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور سے پانی ابلنے لگا تو ہم نے کہا کہ نوح اپنے ساتھ ہر جوڑے میں سے دو کو لے لو اور اپنے اہل کو بھی لے لو علاوہ ان کے جن کے بارے میں ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا ہے اور صاحبان هایمان کو بھی لے لو اور ان کے ساتھ ایمان والے بہت ہی کم تھے. نوح نے کہا کہ اب تم سب کشتی میں سوار ہوجاؤ خدا کے نام کے سہارے اس کا بہاؤ بھی ہے اور ٹھہراؤ بھی اور بیشک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا مہربان ہے. اور وہ کشتی انہیں لے کر پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان چلی جارہی تھی کہ نوح نے اپنے فرزند کو آواز دی جو الگ جگہ پر تھا کہ فرزند ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجا اور کافروں میں نہ ہوجا. اس نے کہا کہ میں عنقریب پہاڑ پر پناہ لے لوں گا وہ مجھے پانی سے بچالے گا -نوح نے کہا کہ آج حکم خدا سے کوئی بچانے والا نہیں ہے سوائے اس کے جس پر خود خدا رحم کرے اور پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا.

Tafseer

									گذشتہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیه السلام) طوفان شروع ہونے کے بعد تک اپنے بیٹے کو تبلیغ کرتے رہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اگر وہ ایمان لے آتا تو اس کا ایمان قابل قبول ہوتا، یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ قرآن کی دوسری آیات کی طرف توجہ کرنے سے ، جن کے کچھ نمونے بیان کئے جاچکے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ عذاب نازل ہونے کے بعد توبہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں کیونکہ ایسے مواقع پر تو اکثر سرکش گنہگار جو اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیتے ہیں بے اختیار ہوتے ہیں اور اضطرار کی حالت میں توبہ کرتے ہیں، ایسی توبہ جس کی کوئی قدر قیمت، اہمیت اور وقعت نہیں، ایسی توبہ جس کا کوئی مفہوم نہیں ۔
اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ آیات بالا میں غور فکر کرنے سے اس سوال کا جواب اس طرح سے مل سکتا ہے کہ آغاز طوفان میں عذاب کی کوئی واضح نشانی موجود نہیں تھی بلکہ تیز اور اور غیر معمولی بارش نظر آتی تھی اسی تو نوح (علیه السلام) کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ میں پہاڑ کی پناہ لے لوں گاتاکہ غرق ہونے سے بچ جاؤں ، اسے یہ گمان تھا کہ بارش اور طوفان ایک طبیعی چیز ہے، ایسے مواقع پر توبہ کے دروازوں کا کھلا ہونا کوئی عجیب مسئلہ نہیں ۔
دوسرا سوال جو حضرت نوح (علیه السلام) کے بیٹے سلسلے میں کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت نوح (علیه السلام)نے اس حساس موقع پر صرف اپنے بیٹے کو کیوں پکارا سب لوگوں کو دعوت کیوں نہ دی، ہوسکتا ہے یہ اس بنا پر ہو کہ وہ عمومی دعوت کا فریضہ سب کے لئے یہان تک کہ بیٹے کے لئے بھی انجام دے چکے تھے لیکن بیٹے کے بارے میں ان کی ذمہ داری زیادہ ہو کیونکہ وہ اس کے لئے نبی ہونے کے علاوہ باپ ہونے ہونے کے حوالے سے بھی مسئولیت رکھتے تھے، اسی بنا پر اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے آخری لمحات میں اپنے فرزند کے لئے مزید تاکید کررہے تھے ۔
بعض مفسرین کے بقول یہاں ایک احتمال اور بھی ہے اور وہ یہ کہ پسر نوح اس وقت نہ کفار کی صف میں تھا اور نہ مومنین کی صف میں، جملہ”وکان فی معزل“(وہ گوشہ تنہائی میں کھڑا تھا ) کو انھوں نے اس کی دلیل قرار دیا ہے، اگرچہ وہ مومنین کی صف میں شامل نہ ہونے کہ وجہ عذاب کا مستحق تھا لیکن کفار کی صف سے اس کی کنارہ کشی کا تقاضا تھا کہ طریق تبلیغ سے اس کے ساتھ لطف ومحبت کا اظہار کیا جاتا ہے، علاوہ ازیں کفار کی صف سے اس کی علحیدگی نے حضرت نوح (علیه السلام) یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید وہ اپنے کام سے پشیمان ہوچکا ہے ۔
آئندہ کی آیات پر توجہ کرنے سے یہ احتمال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پسر نوح صراحت سے اپنے باپ کی مخالفت نہیں کرتا تھا بلکہ ”منافقین“ کی صورت میں تھا اور بعض اوقات آپ کے سامنے اظہار موافقت کرتا تھا، ایسی لئے حضرت نوح (علیه السلام) نے کدا سے اس کے لئے نجات کا تقاضا کیا ۔
بہرحال مندرجہ بالا آیت ان آیات کے منافی نہیں ہے جو کہتی ہیں کہ نزول عذاب کے وقت توبہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں ۔