۱۔ تین مربوط حقائق:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ۲۳مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالْأَعْمَىٰ وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ ۚ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ۲۴
بیشک جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دئیے اور اپنے رب کی بارگاہ میں عاجزی سے پیش آئے وہی اہل جّنت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں. کافر اور مسلمان کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے سننے والے کی ہے تو کیا یہ دونوں مثال کے اعتبار سے برابر ہوسکتے ہیں تمہیں ہوش کیوں نہیں آتا ہے.
ایمان، عملِ صالح اور دعوتِ حق کے سامنے سرتسلیم خم، در اصل تین ایسے حقائق ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں کیونکہ عملِ صالح شجر ایمان کا ثمر ہے، وہ ایمان جس کا ثمرہ عمل صالح نہ ہو ایسا کمزور اور بے وقعت ہوتا ہے کہ جو کسی شمار میں نہیں لایا جاسکتا، اسی طرح سرِتسلیم خم اور پروردگار کے وعدوں پر اطمینان ایسا مسئلہ ہے جو ایمان اور عملِ صالح کے آثار میں سے نہیں ہے کیونکہ صحیح اعتقاد اور پاک عمل ہی انسان کی جان اور روح ہیں ان بلند صفات وملکات کے پیدا ہونے کا سرچشمہ ہے ۔