جنگی طاقت میں اضافہ اور اس کا مقصد
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ۶۰وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۶۱وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ ۚ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ۶۲وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۶۳يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ۶۴
اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن -اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے سب کو خوفزدہ کردو اور جو کچھ بھی راہ هخدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا. اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے. اور اگر یہ آپ کو دھوکہ دینا چاہیں گے تو خدا آپ کے لئے کافی ہے -اس نے آپ کی تائید ,اپنی نصرت اور صاحبان ه ایمان کے ذریعہ کی ہے. اور ان کے دلوں میں محبّت پیدا کردی ہے کہ اگر آپ ساری دنیا خرچ کردیتے تو بھی ان کے دلوں میں باہمی الفت نہیں پیدا کرسکتے تھے لیکن خدا نے یہ الفت و محبّت پیدا کردی ہے کہ وہ ہر شے پر غالب اور صاحب هحکمت ہے. اے پیغمبر آپ کے لئے خدا اور وہ مومنین کافی ہیں جو آپ کا اتباع کرنے والے ہیں.
اسلامی جہاد کے سلسلے میں گذشتہ احکام کی مناسبت سے زیرِ نظر پہلی آیت میں مسلمانوں کی توجہ زندگی کے لئے ایک بنیادی قانون کی طرف دلائی گئی ہے جو ہر زمانے میں اور ہر وقت نظر میں رہنا چاہیے اور وہ ہے دشمن کے مقابلے میں کافی دفاعی تیاری کا لزوم۔
پہلے قرآن کہتا ہے: اور دشمن کے مقابلے میں جس قدر ممکنہوسکے قوت تیار رکھو (وَاٴَعِدُّوا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ)۔
یعنی اس انتظار میں نہ رہو کہ جب دشمن تم پر حملہ کرے گا اس وقت اس کے مقابلے میں تیاری کروگے بلکہ پہلی ہی دشمن کے احتمالی حملے کے مقابلے میں کافی تیاری ہونا چاہیے۔
اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: اور اسی طرح طاقتور اور آزمودہ کار گھوڑے میدانِ جہاد کے لئے فراہم رکھو (وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ)۔
”رباط“ کا معنی ہے ”باندھنا اور پیوند لگانا“ زیادہ تر یہ لفظ کسی جگہ سے کسی جانور کے حفاظت کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، بعدازاں اسی مناسبت سے حفاظت اور نگرانی کرنے کے عمومی معنی استعمال ہونے لگا۔ ”مرابطہ“ سرحدوں کی حفاظت کرنے کو کہتے ہیں، اسی طرح ہر چیز کی حفاظت کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور جانوروں کے باندھنے اور حفاظت کرنے کی جگہ ”رباط“ کہتے ہیں، اسی طرح سرائے کو عرب ”رباط“ کہتے ہیں۔