Tafseer e Namoona

Topic

											

									  ایک اہم اسلامی حکم ،خمس

										
																									
								

Ayat No : 41

: الانفال

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ۴۱

Translation

اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ , رسول ,رسول کے قرابتدار ,ایتام ,مساکین اور مسافران هغربت زدہ کے لئے ہے اگر تمہارا ایمان اللہ پر ہے اور اس نصرت پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے.

Tafseer

									سورت کی ابتداء میں ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ مسلمانوں نے چنگ بدر کے بعد جنگی غنائم کے سلسلے میں جھگڑا کیا تھا۔ خدا نے مادہٴ اختلاف کی ریشہ کنی کے لئے غنائم کو مکمل طور پر پیغمبر کے اختیار میں دے دیا تاکہ وہ جیسے مصلحت سمجھیں انھیں صرف کریں اور پیغمبر اکرم نے جنگ میں حصّہ لینے والے غاریوں کے درمیان انھیں مساوی طور پر تقسیم کردیا۔ 
زیر نظر آیت در حقیقت اسی مسئلہ غنائم کی طرف بازگشت ہے۔ یہ ان آیات کی مناسبت سے ہے جو اس سے قبل جہاد کے بارے میں آئی ہیں اور چونکہ عام طور پر جہاد کا غنائم کے مسئلے سے تعلق ہوتا ہے لہٰذا حکمِ غنائم کو بیان یہاں مناسبت رکھتا ہے (بلکہ جیسا کہ ہم بتائیں گے قرآن یہاں اس حکم کو جنگی غنائم سے بھی بالاتر لے گیا ہے اور ہر طرح کی آمدن کی طرف اشارہ کرتا ہے)۔
آیت کے شروع میں فرمایا گیا ہے: جان لو کہ جیسی غنیمت بھی تمھیں نصیب ہو اس کا پانچواں حصّہ خدا، رسول، ذی القربیٰ (آئمہ اہل بیت) اور (خاندان رسول میں سے) یتیموں ، مسکینوںاور مسافروں کے لئے ہے (وَاعْلَمُوا اٴَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَاٴَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبیٰ وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ)۔
تاکید کے طور پر مزید فرمایا گیا ہے: اگر تم خدا پر اور وہ جو ہم نے اپنے بندے پر (جنگ بدر کے دن) حق کے باطل سے جدا ہونے کے دن جب مومن و کافر ایک دوسرے کے مد مقابل ہوئے تھے نازل کیا، ایمان لائے ہو تو اس حکم پر عمل کرو اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کردو (إِنْ کُنتُمْ آمَنْتُمْ بِاللهِ وَمَا اٴَنزَلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ)۔
یہاں اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اس آیت میں روئے سخن مومنین کی طرف ہے کیونکہ جہاد اسلامی کے غنائم کے بارے میں بحث ہورہی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ مجاہد اسلام مومن ہوتا ہے، اس کے باوجود فرمایا گیا: ”اگر تم خدا اور رسول پر ایمان لائے ہو“۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اظہار ایمان، ایمان کی علامت نہیں بلکہ میدانِ جہاد میں شرکت بھی ہوسکتا ہے ایمان کامل کی نشانی نہ ہو اور یہ عمل کچھ اور مقاصد کے لئے انجام پارہا ہو۔ مومن کامل وہ شخص ہے جو تمام احکام کے سامنے اور بالخصوص مالی احکام کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہو اور خدائی احکام میں تبعیض کا قائل نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک حکم مان لے اور دوسرے کو چھوڑ دے۔
آیت کے آخر میں خدا کی غیر محدود قدرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اور خدا ہر چیز پر قادر ہے (وَاللهُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ)۔یعنی باوجودیکہ میدان بدر میں تم ہر لحاظ سے اقلیت میں تھے اور دشمن ظاہراً ہر لحاظ سے برتری رکھتا تھا، قادر و توانا خدا نے انھیں شکست دی اور تمھاری مدد کی یہاں تک کہ تم کامیاب ہوگئے۔