Tafseer e Namoona

Topic

											

									  اعتراضات کے جوابات

										
																									
								

Ayat No : 47-48

: البقرة

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ۴۷وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ ۴۸

Translation

اے بنی اسرائیل! ہماری ان نعمتوں کویاد کرو جو ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں اور ہم نے تمہیں عالمین سے بہتر بنایا ہے. اس دن سے ڈرو جس دن کوئی کسی کابدل نہ بن سکے گا اور کسی کی سفارش قبول نہ ہوگی. نہ کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ کسی کی مدد کی جائے گی.

Tafseer

									جیسے کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ عرف عام کی شفاعت اور منطق اسلام کی شفاعت میں بہت فرق ہے ایک کی بنیاد اس کی فکر کو تبدیل کرنا ہے جس کے پاس شفاعت ہونی ہے اور دوسرے کی بنیاد اس شخص میں گوناگوں تبدیلیاں پیدا کر نا ہیں جس کی شفاعت ہورہی ہے 
واضح ہے کہ پہلے معنٰی والی شفاعت تمام تر ا عتر ا ضات کا مو جب ہے۔ اسی سے سعی وطلب کی رو ح مضمحل ہو تی ہے اور وہی گناہ کی طرف رغبت کا با عث بنتی ہے پسماندہ اور طوائف الملوکی شکار معاشرے کی انعکاسی کرتی ہے نیز ایک قسم کے شرک یاانحراف کاشکار پاتی ہے کیونکہ اگر ہمارااعتقاد ہو کہ خد ا کے علم میں تغیرآسکتاہے اورجس کی شفاعت کی جارہی ہے اس کی کسی ایسی بات کو خداکے سامنے واضح کیا جا سکتا ہے جسے وہ نہیں جانتا اور اس کے علاوہ کو ئی اور ایسا مبداء ہے جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے اور اس کے وسیلے سے خد اکے غضب کو ٹھنڈ اکیا جایاسکتا ہے یا اس کی محبت کو اس کے ذریعہ اپنی طرف جذب کیا جاسکتا ہے یا پھر یہ اعتقاد رکھیں کہ خدا کے لئے ممکن ہے وہ ا پنے بعض بندوں کے مقام و اہمیت کا محتاج ہو اور اس اختیار کی وجہ سے کسی مجرم کے بارے میں ان کی شفاعت قبو ل کرے یا پھر ہمارا اعتقاد ہو کہ ممکن ہے و ہ وسائط کے اثر ورسوخ سے ڈر جائے اور ان کی شفاعت قبو ل کر ے تو یہ تمام امو ر ہمیں اصل توحیداور صفات خدا سے دور کر دیتے ہیںاور شرک وبت پرستی کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں ۔یہ سب عرف عام والی شفاعت کی خصوصیات ہیں جو در اصل اس کے غلط معانی ہیں ۔
مگر صحیح شفاعت کہ جس وہ شرائط ،کو ا ئف اور خصوصیات موجود ہیں جن کی طرف ابھی ہم نے اشارہ کیاہے تو اس میں ان عیوب میں سے کسی کی بھی کو ئی گنجائش نہیں ہے وہ شفاعت گناہ کی تر غیب نہیں دلاتی بلکہ تر کہ گناہ کا وسیلہ ہے ۔وہ سستی اور کاہلی کی دعوت نہیں دیتی بلکہ روح امید پیدا کرکے انسانی قویٰ کو گذ شتہ غلطیو ں اور خطاوٴں کی تلافی کے لئے مجتمع کردیتی ہے ،و ہ گذ شتہ کردار سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھنے دیتی بلکہ مجرموں ،گناہگاروں اور زیادتی کرنے والوں کی اصلاح کا ایک تربیتی وسیلہ ہے ۔نہ صرف یہ کہ ایسی شفاعت شرک نہیں ہے بلکہ عین توحید ہے اور خدا کی طرف اور اس کی صفات کی طرف توجہ کا باعث ہے کیو نکہ یہ در اصل اس کے اذن اور فرمان سے مدد طلب کرنا ہے (پھر بھی غور کیجئے )