Tafseer e Namoona

Topic

											

									  تفسیر

										
																									
								

Ayat No : 5-6

: الانفال

كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ ۵يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُونَ ۶

Translation

جس طرح تمہارے رب نے تمہیں تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا اگرچہ مومنین کی ایک جماعت اسے ناپسند کررہی تھی. یہ لوگ آپ سے حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی اس کے بارے میں بحث کرتے ہیں جیسے کہ موت کی طرف ہنکائے جارہے ہوں اور حسرت سے دیکھ رہے ہوں.

Tafseer

									اس سورہ کی پہلی آیت میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ نئے مسلمانوں میں کچھ لوگ جنگ بدر کے غنائم کی تقسیم کی کیقیت سے ناراض تھے یہاں تک کہ زیر بحث آیات میں بھی خداوندعالم انھیں کہتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ کوئی چیز تمھیں اچھی نہ لگے چاہے تمھاری مصلحت اسی میں ہو جیسا کہ خود جنگ بدر تم میں سے بعض کو ناپسند تھی کہ جس کے مالِ غنیمت کے بارے میں اب تم گفتگو کررہے ہو لیکن تم نے دیکھا کہ آخرکار وہ مسلمانوں کے لئے درخشاں نتائج کی حامل ہوئی لہٰذا احکام الٰہی کو اپنی کوتاہ نظر سے نہ دیکھو بلکہ ان کے سامنے سرتسلیم خم کرو اور ان کے اصلی نتائج سے فائدہ اٹھاؤ۔
پہلی آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے : غنائمِ بدر پر کچھ افراد کی یہ ناگواری ایسے ہی ہے جیسے خدا نے تجھے تیرے گھر اور مقام مدینہ سے حق کے ساتھ باہر نکالا جبکہ کچھ مومنین اس سے کراہت کررہے تھے اور اسے ناپسند کرتے تھے (کَمَا اٴَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِیقًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ لَکَارِھُونَ)۔
”بِالْحَقِّ“ اس طرف اشارہ ہے کہ خروج کا یہ حکم الٰہی اور پیغامِ آسمانی کے مطابق دیا گیا تھا کہ جس کا نتیجہ اسلامی معاشرے کے حق میں تھا۔
یہ ظاہر بین اور کم حوصلہ لوگ بدر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں اس فرمانِ حق کے بارے میں مسلسل تجھ سے مجادلہ اور گفتگو کرتے رہے اگرچہ وہ جانتے تھے کہ یہ حکم خدا ہے پھر بھی اعتراض سے باز نہیں آتے تھے(یُجَادِلُونَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ)۔ اور انھیں خوف وہراس نے یوں گھیر رکھا تھا جیسے انھیں موت کی طرف دھکیلا جارہا ہو اور گویا وہ اپنی موت اور نابودی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں (کَاٴَنَّمَا یُسَاقُونَ إِلَی الْمَوْتِ وَھُمْ یَنظُرُونَ)۔
بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ کس قدر غلط فہمی کا شکار تھے اور بلاوجہ خوف وہراس میں گرفتار تھے اور جنگ بدر مسلمانوں کے لئے کیسی درخشاں کامیابی لے کر آئی تو یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود انھوں نے جنگ بدر کے بعد مالِ غنیمت کے سلسلے میں زبان اعتراض کیوں دراز کی ہے۔
ضمنی طور پر ”فَرِیقًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ“ کی تعبیر سے واضح ہوتا ہے کہ اوّل تو یہ جھگڑا اور گفتگو منافقت اور بے ایمانی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ ایمان کی کمزوری اور اسلامی مسائل کے بارے میں کافی دانش وبینش نہ ہونے کی وجہ سے تھی۔
دوسری بات یہ کہ صرف چند افراد ہی ایسی فکر رکھتے تھے اورمسلمانوں کی اکثریت جو سچّے مجاہدوں پر مشتمل تھی فرمانِ پیغمبر اور ان کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے تھی۔

 


۷- وَإِذْ یَعِدُکُمْ اللهُ إِحْدیٰ الطَّائِفَتَیْنِ اٴَنَّھَا لَکُمْ وَتَوَدُّونَ اٴَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُونُ لَکُمْ وَیُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِینَ-
۸- لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ-
ترجمہ
۷۔ اور وہ وقت یاد کرو جب خدا نے تم سے وعدہ کیا کہ قریش کے تجارتی قافلے اور (ان کا لشکر، ان) دوگروہوں میں سے تمھارے لئے ایک ہوگا (اور تم اس پر کامیاب ہوجاؤگے) لیکن خدا چاہتا ہے کہ اپنے کلمات سے حق کو تقویت دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے (لہٰذا لشکر قریش سے تمھاری مڈبھیڑ کروادی)
۸۔ تاکہ حقثابت ہوجائے اور باطل ختم ہوجائے اگرچہ مجرم اسے ناپسند کرتے ہوں اور اس سے کراہت کرتے ہوں۔